حجِ قِران کی نیت سے احرام باندھا تو مکہ پہنچ کر کیا نیت تبدیل کر سکتا ہے؟

مفتی صاحب ایک آدمی نے حجِ قِران کی نیت سے احرام باندھا تو مکہ پہنچ کر کیا وہ اپنی نیت تبدیل کر سکتا ہے

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ
اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

کسی شخص کا حجِ قِران یعنی عمرہ و حج دونوں کی نیت سے احرام باندھنا پھر مکۃ المکرمہ میں جا کر اپنی نیت کو بدلنا اور حج یا عمرہ فسخ کرنا جائز نہیں کیونکہ احرام مکمل ہونے کے بعد مُحرِم، اِحرام کی پابندیوں سے اُسی وقت آزاد ہوتا ہے جب وہ تمام افعال بجا لائے جن کے لئے اس نے اِحرام باندھا ہے.

صحيح بخاری و مسلم شریف میں ہے: ” عن عائشة رضي اﷲ تعالیٰ عنها قالت : خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمِنَّا مَنْ أَهَلَّ بِعُمْرَةٍ، وَمِنَّا مَنْ أَهَلَّ بِحَجَّةٍ، وَمِنَّا مَنْ أَهَلَّ بِحَجٍّ وَعُمْرَةٍ، وَأَهَلَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالحَجِّ، فَأَمَّا مَنْ أَهَلَّ بِالحَجِّ أَوْ جَمَعَ الحَجَّ وَالعُمْرَةَ، فَلَمْ يَحِلُّوا حَتَّى يَوْمِ النَّحْرِ ” ترجمہ : حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنھا فرماتی ہیں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (حج کے) لئے نکلے، ہم میں سے بعض وہ تھے جنہوں نے صرف عمرے کا احرام باندھا تھا، بعض وہ تھے جنہوں نے صرف حج کا احرام باندھا، اور بعض وہ تھے جنہوں نے حج و عمرہ دونوں کا احرام باندھا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف حج کا احرام باندھا تھا، پس جس نے حج کا احرام باندھا یا حج و عمرہ دونوں کو جمع کیا تو وہ قربانی کے دن (دس ذی الحج) تک احرام میں ہی رہا.
(صحيح البخاري،کتاب المغازی، باب حجۃ الوداع، حدیث نمبر 4408 ، 177/5)

بحرالرائق میں ہے : ” أن فسخ الحج إلى العمرة لا يجوز) أي بأن يفسخ نية الحج بعد ما أحرم به ويقطع أفعاله ويجعل إحرامه وأفعاله للعمرة، وكذا لا يجوز فسخ العمرة ليجعلها حجا” ترجمہ : (حج کو عمرہ کی طرف فسخ کرنا جائز نہیں) یعنی حج کی نیت سے حج کا احرام باندھنے کے بعد حج کی نیت کو فسخ کرنا، حج کے افعال کو ختم کرنا اور پھر حج کے احرام و افعال کو عمرہ کے لئے بنانا (جائز نہیں) ایسے ہی عمرہ کو فسخ کرنا تاکہ اس کو حج بنائے جائز نہیں.
(البحر الرائق شرح كنز الدقائق،کتاب الحج ، باب الإحرام ، 359/2)

در مختار اور فتح القدیر میں ہے : “إذا أتم الإحرام بحج أو عمرة لا يخرج عنه إلا بعمل ما أحرم به وإن أفسده إلا في الفوات فبعمل العمرة وإلا الإحصار فبذبح الهدي ” ترجمہ : جب حج یا عمرہ کا احرام مکمل ہو جائے تو محرِم اب اس احرام سے باہر نہیں نکل سکتا مگر اسی عمل کے ساتھ جسکے لیے احرام باندھا ہے، اگرچہ اس حج یا عمرہ کے احرام کو فاسد کر دے ( یعنی اگرچہ اپنی طرف سے نیت کر کے اس احرام کو فاسد کرے پھر بھی احرام کی پابندیوں سے آزاد نہ ہو گا ) مگر حج فوت ہونے اور احصار کی صورت میں (یعنی ان دونوں صورتوں میں محرم تمام افعال بجا لائے بغیر احرام کھول سکتا ہے لیکن مطلقا نہیں بلکہ) فوت ہونے والی صورت میں عمرہ بجا لانے سے اور احصار کی صورت میں (اسکی طرف سے بھیجا ہوا) قربانی کا جانور ذبح ہونے سے.
(الدرالمختار وحاشية ابن عابدين (ردالمحتار) ،کتاب الحج ، فصل فی الإحرام ، 480/2)
( فتح القدير للكمال ابن الهمام، کتاب الحج ،باب الإحرام، 429/2)

نیز حج کی نیت سے باندھا ہوا احرام عمرہ کی طرف فسخ کر دینا فقط حجۃ الوداع کے ساتھ خاص تھا،اب کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ اس طرح فسخ کرلے۔ سنن ابی داؤد کی حدیث پاک ہے : ”عن الحارث بن بلال بن الحارث، عن أبيه، قال: قلت: يا رسول الله، فسخ الحج لنا خاصة أو لمن بعدنا؟ قال: «بل لكم خاصة»“ ترجمہ: حضرت حارث بن بلال بن حارث اپنےوالد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عرض کی، فسخ حج ہمارے ساتھ خاص ہے یا ہمارے بعد بھی ہے؟ حضور علیہ السلام نے فرمایا:نہیں بلکہ یہ حکم صرف تم لوگوں کے ساتھ خاص ہے۔
(سنن أبي داود،كتاب المناسك،باب الرجل يهل بالحج ثم يجعلها عمرة، جلد2،صفحہ161،حدیث1808،المكتبة العصرية،بيروت)

عمدۃ القاری میں علامہ بدر الدين عینی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ”وقال النووي أيضا اختلف العلماء في هذا الفسخ هل هو خاص للصحابة تلك السنة خاصة أم باق لهم ولغيرهم إلى يوم القيامة، فيجوز لكل من أحرم بحج وليس معه هدي أن يقلب إحرامه عمرة ويتحلل بأعمالها؟ وقال مالك والشافعي وأبو حنيفة وجماهير العلماء من السلف والخلف: هو مختص بهم في تلك السنة ، لا يجوز بعدها “ ترجمہ: اسی طرح امام نووی نے فرمایا کہ علماء کو اس فسخ میں اختلاف ہے کہ یہ خاص صحابہ کرام کرام علیہم الرضوان کے لیے صرف اسی سال خاص تھا یا اب بھی یہ حکم دوسروں کے لیے قیامت تک باقی ہے،کیا ہر ایک کے لیے جائز ہے کہ جو حج کااحرام باندھے لیکن اس کے ساتھ ہدی نہ ہوتو وہ اپنا احرام عمرے کی طرف پھیر دے اور عمرہ کرکے احرام سے باہر ہوجائے؟ امام مالک، شافعی، ابوحنیفہ اور جمہور اگلے پچھلے علماء نے فرمایا کہ یہ (حج کا احرام عمرہ کی طرف فسخ کرنا) صرف اسی (حجۃ الودا ع کے)سال کے لیے خاص تھا بعد میں یہ جائز نہیں۔
(عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری، کتاب الحج ، باب عمرة التنعيم، جلد10 ، صفحہ122، دار إحياء التراث العربي، بيروت)

مرقاۃ شرح مشکوۃ میں ملا علی قاری علیہ الرحمتہ فرماتے ہیں : “وَقَالَ مَالِكٌ وَالشَّافِعِيُّ وَأَبُو حَنِيفَةَ وَمَشَاهِيرُ الْعُلَمَاءِ مِنَ السَّلَفِ وَالْخَلَفِ رَحِمَهُمُ اللَّهُ تَعَالَى: هُوَ مُخْتَصٌّ بِهِمْ فِي تِلْكَ السَّنَ ” ترجمہ : امام مالک، شافعی، ابو حنیفة اور سلف و خلف میں سے مشہور علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وہ (یعنی حج کے احرام کو عمرہ سے فسخ کرنا) اُسی سال صحابہ کرام کے ساتھ خاص تھا.
(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح،کتاب المناسک ، باب قصۃ حجۃ الوداع، 1769/5)

(والله تعالى اعلم بالصواب)

کتبہ : ابو الحسن حافظ محمد حق نواز مدنی

اپنا تبصرہ بھیجیں