قربانی کا جانور دوسرے دن اٹیک ھونے سے مر گیا تو تاوان کس پر؟

قربانی کا جانور خریدا بڑا 110000 کا اور بیان دیا 20000 جانور ابھی مالک کے پاس تھا اس سے کہا کے دو تین دن بعد میں آ کر لے جاٸیں گے لیکن جانور دوسرے دن اٹیک ھونے سے مر گیا، کیا خریدنے والوں کو بقیہ پیسے دینے ہوں گے یا ایڈوانس وآپس لینا ہے.
اگر مالک کو بقیہ پیسے دینے ہیں تو اس صورت میں کیا پھر سے قربانی خریدنی ھوگی یا نہیں؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ
اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

مذکورہ سوال کی دو صورتیں ہیں.
پہلی صورت : خریدار نے معین جانور خریدا، بیعنامہ دیا اور بعد از قبضہ جانور بیچنے والے کے پاس رکھا، پھر جانور اس کے پاس ہلاک ہو گیا، اس صورت میں نقصان خریدار کا ہو گا اور خریدار کو بقیہ طے شدہ رقم بھی ادا کرنا ہو گی کیونکہ قبضہ کے بعد کسی آفت سماوی کے سبب، مبیع ہلاک ہونے کی صورت میں بیع ختم نہیں ہوتی اور نقصان خریدار کا ہوتا ہے، چنانچہ بدائع الصنائع میں ہے : ” فَأَمَّا إذَا هَلَكَ كُلُّهُ بَعْدَ الْقَبْضِ، فَإِنْ هَلَكَ بِآفَةٍ سَمَاوِيَّةٍ، أَوْ بِفِعْلِ الْمَبِيعِ أَوْ بِفِعْلِ الْمُشْتَرِي لَا يَنْفَسِخُ الْبَيْعُ، وَالْهَلَاكُ عَلَى الْمُشْتَرِي، وَعَلَيْهِ الثَّمَنُ؛ لِأَنَّ الْبَيْعَ تَقَرَّرَ بِقَبْضِ الْمَبِيعِ، فَتَقَرَّرَ الثَّمَنُ ترجمہ : ” بہر حال جب مبیع قبضہ کے بعد کسی آفت سماوی یا مبیع یا مشتری کے فعل سے ہلاک ہو جائے تو بیع ختم نہیں ہوتی اور اور یہ ہلاکت مشتری کی ملک پر ہو گی اور مشتری پر ثمن لازم ہے کیونکہ مبیع پر قبضہ کے سبب بیع پکی ہو گئی اور پھر ثمن بھی پکا ہو گیا.
(الكاساني، بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع، ٢٣٩/٥)
خیال رہے جب بیچنے والا خریدار کو جانور پر قبضہ کا اذن دے دے اور جانور خریدار کے اتنے قریب ہو کہ وہ با آسانی قبضہ کر سکتا ہے، تو وہ قبضہ ہی شمار ہو گا چنانچہ محیط برہانی اور فتاویٰ ہندیہ میں ہے: ” أن رجلاً اشترى بقرة من رجل وهي في المرعى فقال له البائع: اذهب واقبض البقرة فأفتى بعض مشايخنا: أن البقرة إن كانت بمرأى العين بحيث يمكن الإشارة إليها فهذا قبض وما لا فلا، وهذا الجواب ليس بصحيح،والصحيح أن البقرة إن كانت بقربهما بحيث يتمكن المشتري من قبضها لو أراد فهو قابض لها : ترجمہ : کسی شخص نے بیل خریدا جو چراہ گاہ میں ہے مشتری سے بائع نے کہدیا جاؤ قبضہ کرلو، تو بعض مشائخ نے فتوی دیا کہ اگر بیل آنکھوں کے سامنے ہے کہ اُس کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے تو قبضہ ہوا، ورنہ نہیں، یہ جواب صحیح نہیں بلکہ صحیح یہ ہے کہ بیل بائع اورمشتری کے اتنے قریب ہو اگر مشتری قبضہ کرنا چاہے تو قبضہ کرسکے تو قبضہ ہوگیا
(المحيط البرهاني في الفقه النعماني، کتاب البیع ، الفصل الثالث فی قبض المبیع ،٢٨٦/٦)
(الفتاوى الهندية، کتاب البیوع ،الباب الرابع فی حبس المبیع، جلد 3 ، صفحہ 18)

دوسری صورت : خریدار نے جانور معین کیے بغیر ، قبل از قبضہ ویسے ہی ایڈوانس رقم مالک کو دی اور کہا دو تین دن بعد لے جائیں گے، پھر وہ جانور مالک کے پاس ہلاک ہو گیا، اس صورت میں نقصان بیچنے والے کا ہو گا ، کیونکہ اولا تو مبیع کے غیر معین ہونے کے سبب یہ عقد ہی جائز نہ تھا، پھر یہ کہ محض مبیع، بائع کے پاس رکھنے سے خریدار کا قبضہ شمار نہیں ہوتا، اور یہ بات واضح ہے کہ قبضہ سے قبل کسی آفت سماوی کے سبب، مبیع ہلاک ہونے کی صورت میں نقصان بیچنے والے کا ہوتا ہے نہ کہ خریدار کا، لہذا اس صورت میں خریدنے والوں کو بقیہ پیسے بھی نہیں دینے اور جو رقم مالک نے وصول کی ہے، مالک خریدار کو وآپس کرے گا.
مبیع کے غیر معین و مجہول ہونے کی صورت میں بیع فاسد ہوتی ہے چنانچہ المبسوط للسرخسی میں ہے : “لَا يَجُوزُ الْبَيْعُ مَعَ الْجَهَالَةِ ” ترجمہ : جہالت کے ساتھ (یعنی مبیع وثمن وغیرہ کے غیر معین ہونے سے) بیع جائز نہیں.
(المبسوط للسرخسي، کتاب البیوع ، باب بیوع الفاسدۃ، 13/2)

محیط برہانی میں ہے: “وجهالة المبيع توجب فساد العقد” ترجمہ : مبیع کا مجہول ہونا عقد کو فاسد کر دیتا ہے.
(المحيط البرهاني في الفقه النعماني، کتاب البیوع ،الفصل العاشر،462/6)

خریداری کے بعد قبل از قبضہ، محض مبیع بائع کے پاس رکھنے سے خریدار کا قبضہ نہیں ہوتا چنانچہ فتاوی شامی میں ہے: ” ومن القبض ما لو أودعه المشتري عند أجنبي أو أعاره وأمر البائع بالتسليم إليه لا لو أودعه، أو أعاره أو آجره من البائع أو دفع إليه بعض الثمن، وقال: تركته عندك رهنا على الباقي” ترجمہ : اور خریدار کے قبضہ کی صورتوں میں سے یہ بھی ہے کہ اگر مشتری نے مبیع کسی اجنبی کے پاس ودیعت رکھ دی یا عاریت کے طور پر دے دی یا بائع سے کہاں فلاں کے حوالے کر دے، نہ کہ (یعنی خریدار کا قبضہ نہ ہو گا) اگر بائع کے پاس ہی ودیعت رکھی یا عاریت کے طور پر رکھی، یا کرایہ پر دی یا بائع کو کچھ ثمن دیدیا اور کہدیا کہ باقی ثمن کے مقابلہ میں مبیع کو تیرے پاس رہن رکھا. (یعنی ان صورتوں میں قبضہ شمار نہ ہو گا)
(ابن عابدين، الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)، ٥٦١/٤)

بہار شریعت میں ہے : ” مشتری نے مبیع کسی کے پاس امانت رکھدی یا عاریت دیدی یا بائع سے کہہ دیا کہ فلاں کو سُپرد کردے اُس نے سپرد کردی ان سب صورتوں میں مشتری کا قبضہ ہوگیا اور اگر خود بائع کے پاس امانت رکھی یا عاریت دیدی یا کرایہ پر دیدی یا بائع کو کچھ ثمن دیدیا اور کہدیا کہ باقی ثمن کے مقابلہ میں مبیع کو تیرے پاس رہن رکھا تو ان سب صورتوں میں قبضہ نہ ہوا۔
(بھار شریعت ، جلد2، صفحہ 641، مکتبۃ المدینہ ، کراچی )

اور قبضہ سے پہلے کسی آفت سماوی کے سبب مبیع کے ہلاک ہونے کی صورت میں بیع ختم ہو جاتی ہے اور بائع پیسے وآپس کرے گا چنانچہ بدائع الصنائع میں ہے : ” فَإِنْ هَلَكَ كُلُّهُ قَبْلَ الْقَبْضِ بِآفَةٍ سَمَاوِيَّةٍ انْفَسَخَ الْبَيْعُ ” ترجمہ : اگر تمام مبیع، قبضہ سے قبل کسی آفت سماوی کے سبب ہلاک ہو جائے تو بیع ختم ہو جائے گی
(بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع، ٢٣٩/٥)

فتح القدیر میں ہے : ” فَلَوْ هَلَكَ فِي يَدِ الْبَائِعِ بِفِعْلِهِ أَوْ بِفِعْلِ الْمَبِيعِ بِنَفْسِهِ بِأَنْ كَانَ حَيَوَانًا فَقَتَلَ نَفْسَهُ أَوْ بِأَمْرٍ سَمَاوِيٍّ بَطَلَ الْبَيْعُ، فَإِنْ كَانَ قَبَضَ الثَّمَنَ أَعَادَهُ إلَى الْمُشْتَرِي،
ترجمہ : اگر مبیع ہلاک ہو جائے بائع کے فعل یا مبیع کے فعل جیسے کوئی حیوان اپنے کو مر ڈالے یا کسی آفت سماوی کے سبب تو بیع باطل ہو گئی اور اگر بائع نے ثمن پر قبضہ کر لیا ہے تو بائع مشتری کو ثمن وآپس کرے گا.
(فتح القدير للكمال ابن الهمام، کتاب البیوع ، فصل من باع دارا دخل بناؤھَا، 296/6)

فتاویٰ قاضیخان میں ہے : ” رجل اشتری بقرۃ ، وقال للبائع سقھا الی منزلک حتی أجئ خلفک الی منزلک، وأسوقھا الی منزلی فماتت البقرۃ فی بیت البائع ، فإنھا تھلک علی البائع ” ترجمہ : کسی شخص نے بیل خریدا اور بائع سے کہا اسکو اپنے گھر پر ہی رکھو، بعد میں آپ کے گھر آؤں گا اور اپنے گھر لے جاؤں گا، پس وہ بیل بائع کے گھر مر گیا تو یہ ہلاکت بائع کی ملکیت پر ہو گی.
(فتاوی قاضیخان ، کتاب البیع ، باب فی قبض المبیع، من مسائل التخلیۃ، جلد 2 ، صفحہ 145 ، دارالکتب العلمیۃ)
بہار شریعت میں ہے : ” کوئی چیز خرید کر بائع کے یہاں چھوڑ دی اور کہدیا کہ کل لے جاؤں گا اگر نقصان ہو تو میرا ہوگا اور فرض کرو وہ جانور تھا جو رات میں مرگیا تو بائع کا نقصان ہوا مشتری کا وہ کہنا بیکار ہے اس لیے کہ جب تک مشتری کا قبضہ نہ ہو مشتری کو نقصان سے تعلق نہیں.
(بھار شریعت ، جلد2، صفحہ 644 ، مکتبۃ المدینہ ، کراچی )

ایک اور مقام پر ہے : “مشتری نے ابھی مبیع پر قبضہ نہیں کیا ہے کہ وہ مبیع بائع کے فعل سے ہلاک ہوگئی یا اُس مبیع نے خوداپنے کو ہلاک کردیا یاآفت سماوی سے ہلاک ہوگئی تو بیع باطل ہوگئی بائع نے ثمن پر قبضہ کرلیا ہے تو واپس کرے”
(بھار شریعت ، جلد2، صفحہ 639-640، مکتبۃ المدینہ ، کراچی )

جہاں تک تعلق ہے نیا جانور خرید کر قربانی کرنے کا تو اس صورت میں شرعی حکم یہ ہے کہ اگر خریدار صاحب نصاب ہے تو اسے دوسرے جانور کی قربانی کرنا لازم ہے اور اگر فقیر ہے تو اس پر قربانی لازمی نہیں چنانچہ ہدایہ شریف میں ہے : ’’ قالوا إذا ماتت المشتراة للتضحية على الموسر مكانها أخرى ولا شيء على الفقير “یعنی فقہائے کرام رحمہم اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جب قربانی کے لیے خریدی گئی بکری مر گئی ہو، تو خوشحال ،غنی پر دوسری بکری کرنا لازم ہے، جبکہ فقیر پر کچھ لازم نہیں ۔
(الھدایۃ،کتاب الاضحیۃ ، جلد4، صفحہ 407، دار الکتب العلمیہ ، بیروت )

ہدایہ کی شرح بنایہ میں ہے : ” إذا ماتت المشتراة للتضحية على الموسر مكانها أخرى أي قال المشائخ رَحِمَهُمُ اللہ إذا ماتت الشاة المشتراة لأن التضحية على الغني مكان هذه شاة أخرى ولا شيء على الفقير يعني إذا ماتت المشتراة لأنها كانت متعينة وماتت كما ذكرنا“ ترجمہ : قربانی کے لیے خریدی ہوئی بکری جب مر جائے ، تو غنی پر دوسری بکری کی قربانی کرنا لازم ہے ۔ یعنی مشائخ کرام رحمہم اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جب قربانی کے لیے خریدی ہوئی بکری مر جائے ، ( تو یہ حکم ہے ) کیونکہ غنی پر اس کی جگہ دوسری کرنا لازم ہے اور فقیر پر کچھ بھی نہیں ہے یعنی جب فقیر کی قربانی کے لیے خریدی ہوئی بکری مر جائے ، ( تو اس پر کچھ لازم نہیں ہے ) کیونکہ فقیر کے لیے وہی معین تھی اور وہ مر گئی ہے ۔ جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ہے ۔
( البنایہ ، کتاب الاضحیۃ ، جلد12، صفحہ 43،44، مطبوعہ کوئٹہ )

صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ بہار شریعت میں فرماتے ہیں: ”قربانی کا جانور مر گیا، تو غنی پر لازم ہے کہ دوسرے جانور کی قربانی کرے اور فقیر کے ذمہ دوسرا جانور واجب نہیں.

(بھار شریعت ، جلد3، صفحہ 342، مکتبۃ المدینہ ، کراچی )

(والله تعالى اعلم بالصواب)

کتبہ : ابو الحسن حافظ محمد حق نواز مدنی

اپنا تبصرہ بھیجیں