پورے شہر میں اعتکاف سنت کفایہ ہونا

کیا بہارشریعت کے علاوہ بھی کسی فقہ کی کتاب میں پورے شہر میں اعتکاف سنت کفایہ ہونا لکھا ہے؟

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

اعتکاف کرنا پورے شہر پر سنت علی الکفایہ ہے کہ اگر شہر میں سے کسی ایک نے بھی اعتکاف کر لیا تو سب بری الذمہ ہوجائیں گے اور اگر کسی نے نہ کیا تو سب گنہگار ہوں گے اور بہار شریعت کے علاوہ بھی کثیر کتب ميں شہر کی صراحت موجود ہے۔

“البرھان شرح مواھب الرحمن” میں ہے :

سنۃ عَلَیٰ كِفَايَةٍ لِلْإِجْمَاعِ عَلَي عَدَمِ مَلَامَةِ بعْضِ أَهْلِ بَلَدٍ لَمْ یَأتُوْا بِهٖ إذَا أَتَى بِهِ بَعْضٌ مِنْهُمْ

 آخری عشرے کا اعتکاف سنت کفایہ ہے اس پر اجماع ہونے کی وجہ سے کہ جب شہر میں سے بعض لوگوں نے آخری عشرۂ رمضان کا اعتکاف کر لیا تو بقیہ پر ملامت نہیں ۔

(البرھان شرح مواھب الرحمٰن، کتاب الصوم، باب الاعتکاف، جلد نمبر 2، صفحہ نمبر 384)

“فتح المعین” میں ہے :

سنة كفاية للإجماع على عدم ملامة بعض أهل بلد إذا أتى به بعض منهم في العشر الأخير من رمضان

آخری عشرے کا اعتکاف سنت کفایہ ہے اس پر اجماع ہونے کی وجہ سے کہ جب شہر میں سے بعض لوگوں نے آخری عشرۂ رمضان کا اعتکاف کر لیا تو بقیہ پر ملامت نہیں۔ (فتح المعین ،ج1،کتاب الصوم، باب الاعتکاف،ص451، غیر مطبوعہ)

“حاشیۃ الشرنبلالی علی درر الاحکام شرح غرر الاحکام” میں ہے :

قوله وسنة مؤكدة في العشر الأخير) أي سنة كفاية للإجماع على عدم ملامة بعض أهل بلد إذا أتى به بعض منهم في العشر الأخير من رمضان كذا في البرهان

مصنف کا قول اور اعتکاف آخری عشرے میں سنت مؤکدہ ہے، یعنی سنت کفایہ اس پر اجماع ہونے کی وجہ سے کہ جب شہر میں سے بعض لوگوں نے آخری عشرۂ رمضان کا اعتکاف کر لیا تو بقیہ پر ملامت نہیں۔ اسی طرح برھان میں ہے۔

(حاشیۃ الشرنبلالی علی درر الاحکام شرح غرر الاحکام، ج1، کتاب الصوم ،باب الاعتکاف ،ص212،ناشر دار احیاء الکتب العربیہ).

“غنیۃ ذوی الاحکام فی بغیۃ دررالاحکام” میں ہے:

قوله وسنة مؤكدة في العشر الأخير) أي سنة كفاية للإجماع على عدم ملامة بعض أهل بلد إذا أتى به بعض منهم في العشر الأخير من رمضان كذا في البرهان

مصنف کا قول اور اعتکاف آخری عشرے میں سنت مؤکدہ ہے، یعنی سنت کفایہ اس پر اجماع ہونے کی وجہ سے کہ جب شہر میں سے بعض لوگوں نے آخری عشرۂ رمضان کا اعتکاف کر لیا تو بقیہ پر ملامت نہیں۔ اسی طرح برھان میں ہے۔

(غنیة ذوي الاحکام في بغیة درر الاحکام،ج1، باب الاعتکاف ،اقل الاعتکاف ،ص212)

“مجمع الانھر” میں ہے :

وَقِيلَ سُنَّةٌ عَلَى الْكِفَايَةِ حَتَّى لَوْ تَرَكَ أَهْلُ بَلْدَةٍ بِأَسْرِهِمْ يَلْحَقُهُمْ الْإِسَاءُ وَإِلَّا فَلَا كَالتَّأْذِين

اور کہا گیا ہے کہ اعتکاف سنت علی الکفایہ ہے حتی کے شہر کے سب لوگوں نے چھوڑ دیا تو وہ گنہگار ہوں گے ورنہ نہیں جیسا کہ اذان کا حکم ہے ۔

(مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر ،ج1،کتاب الصوم ،باب الاعتکاف ،ص25)

واللہ تعالی اعلم بالصواب والیہ المرجع والمآب

مجیب:ابو معاویہ زاہد بشیر عطاری مدنی

اپنا تبصرہ بھیجیں