رہائش کے قریب والی مسجد چھوڑ کر اور جگہ نماز پڑھنا

علمائے کرام کی بارگاہ میں عرض ہے کہ بعض لوگ گھر یا رہائش کے قریب والی مسجد چھوڑ کر اور جگہ نماز پڑھنے کو گناہ و ناجائز کہتے ہیں۔ اور ایسا کرنے والے کو طعن کرتے ہیں کیا یہ درست ہے اس بارے میں رہنمائی فرما دیں آپ کی بہت نوازش ہوگی۔

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جو مسجد جن لوگوں کے قریب میں ہے ان کے لئے اسی مسجد میں نماز پڑھنا افضل ہے البتہ اگر کوئی دوسری مسجد میں نماز پڑھنے جاتا ہے تو اسے ناجائز و گناہ کہنے یا اس پر طعن و تشنیع کرنے کی اجازت نہیں ہے بلکہ بعض صورتوں میں دوسری مسجد میں ہی نماز پڑھنے کا حکم دیا جائے گا مثلاً امام فاسق و فاجر ہے یا اس میں امامت کی شرائط نہیں پائی جاتیں وغیرہ۔

“بہار شریعت” میں ہے:

 مسجد محلہ میں نماز پڑھنا، اگرچہ جماعت قلیل ہو مسجد جامع سے افضل ہے، اگرچہ وہاں بڑی جماعت ہو، بلکہ اگر مسجد محلہ میں جماعت نہ ہوئی ہو تو تنہا جائے اور اذان و اقامت کہے، نماز پڑھے، وہ مسجد جامع کی جماعت سے افضل ہے۔(بہار شریعت، حصہ 3، احکام مسجد کا بیان، ص654)

“بہار شریعت” میں اسی صفحہ پر مفتی صاحب مزید لکھتے ہیں:

مسجد محلہ کا امام اگر معاذ اﷲ زانی یا سود خوار ہو یا اس میں اور کوئی ایسی خرابی ہو، جس کی وجہ سے اس کے پیچھے نماز منع ہو تو مسجد چھوڑ کر دوسری مسجد کو جائے۔(بہار شریعت، حصہ 3، احکام مسجد کا بیان، ص654)

“محیط البرہانی” میں ہے:

الفاسق إذا كان يؤم ……. من المكتوبات لا بأس أن يتحول إلى مسجد آخر، فلا يصلي خلفه، ولا يأثم بذلك؛ لأن قصده الصلاة خلف تقی

امام جب فاسق ہو تو فرض نمازوں میں لوگوں پر کوئی گناہ نہیں کہ دوسری مسجد کی طرف چلے جائیں اور اس کے پیچھے نماز نہ پڑھیں۔ اور اس وجہ سے لوگوں پر کوئی گناہ نہیں ہے کیونکہ ان کا مقصد کسی متقی امام کے پیچھے نماز پڑھنا ہے۔

 (المحیط البرھانی، ج1، کتاب الصلاۃ ، الفصل السادس عشر فی التغنی و الالحان ،ص407 ، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت- لبنان)

“فتاوی عالمگیری” میں ہے:

وَفِي غَيْرِ الْجُمُعَةِ يَجُوزُ أَنْ يَتَحَوَّلَ إلَى مَسْجِدٍ آخَرَ وَلَا يَأْتَمَّ بِهِ. هَكَذَا فِي الظَّهِيرِيَّةِ.

(امام جب فاسق ہو تو) جمعہ کے علاوہ دوسری نمازوں میں لوگوں کیلئے جائز ہے کہ وہ دوسری مسجد کی طرف چلے جائیں اور اس وجہ سے لوگوں پر کوئی گناہ نہیں ہے ایسا ہی “ظہیریہ” میں ہے۔

(فتاوی عالمگیری، ج1،الباب الخامس في الإمامة ،الفصل الثالث في بيان من يصلح إماما لغيره ،ص86 مطبوعہ دار الفکر بیروت)

“فتاوی فیض الرسول” میں ہے:

 قریب کی مسجد کی جماعت کو چھوڑ کر دور کی مسجد میں جانے والا اگر اس مسجد کا امام یا مؤذن یا مقیم جماعت ہو یعنی اس کے نہ جانے کے سبب جماعت میں خلل کا اندیشہ ہو یا کوئی اور وجہ شرعی ضروری ہو تو دور کی مسجد میں جانا ضروری ہے‘ اور اگر کوئی وجہ شرعی نہ ہو تو قریب کی مسجد کو چھوڑ کر دور کی مسجد میں جانا بہتر نہیں۔

(فتاوی فیض الرسول، ج1، باب الجماعۃ ، ص347 ، شبیر برادرز لاہور)

“بہار شریعت” میں غنیہ ، ردالمحتار، فتح القدیر کے حوالے سے لکھا ہے:

فاسق کی اقتدا نہ کی جائے مگر صرف جمعہ میں کہ اس میں مجبوری ہے، باقی نمازوں میں دوسری مسجد کو چلا جائے اور جمعہ اگر شہر میں چند جگہ ہوتا ہو تو اس میں بھی اقتدا نہ کی جائے، دوسری مسجد میں جا کر پڑھیں۔(بہار شریعت، حصہ 3، امامت کا بیان، ص573)

مجیب:ابو معاویہ زاہد بشیر عطاری مدنی

اپنا تبصرہ بھیجیں