جانوروں کے کان اور سینگ فروخت کرنا

کیا ہم جانوروں کے کان اور سینگ فروخت کرسکتے ہیں عرف میں یہ استعمال نہیں ہوتے اور کچرہ میں پھینک دیے جاتے ہیں اور اس رقم کو ہم کام کرنے والوں میں تقسیم کردیں. ؟ محمد ہارون عطاری(پنجاب)

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ
اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

1 – ہمارے بِلاد میں عُرف و عادت یہی ہے کہ گوشت و سری وغیرہ کا مالک، سینگ کان آنکھ وغیرہ وصول نہیں کرتا بلکہ وہیں دوکان پر ہی رہنے دیتا ہے یا کچرے وغیرہ میں پھینک دیتا ہے اور یونہی قصاب وغیرہ بھی گوشت یا سِری بناتے وقت جانور کے سینگ، کان آنکھ وغیرہ الگ کر کے کچرے میں ڈال دیتے ہیں، ایسے میں اگر کوئی گوشت فروش جانوروں کے سینگ، کان وغیرہ جمع کر کے بیچتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ مالک کا اس انداز میں ان چیزوں کو چھوڑ دینا ان چیزوں کے مباح ہونے کی دلیل ہے، پھر ذبح شرعی کے بعد حلال جانور کے کان کھانا جائز ہے اور سینگ اگرچہ کھایا نہیں جاتا لیکن قابل انتفاع ہے، لہذا فی نفسہ کان اور سینگ کی خرید و فروخت میں بھی کوئی قباحت نہیں.

متعدد کتب فقہ میں ہے : ” اَلْعَادَۃُ مُحْکَمَۃٌ ” یعنی عادت حکم شرعی کی بنیاد ہے۔
(الأشباہ والنظائر ، الفن الأوّل، القواعدالکلیۃ ، النوع الاوّل،القاعدۃ السادسۃ ، ص 79)

علامہ ابن نجیم مصری علیہ الرحمتہ شرح کنزالدقائق میں فرماتے ہیں : ” المعروف عرفا كالمشروط شرطا والعادة محكمة ” یعنی جو چیز عرفا معروف ومعلوم ہو ایسے ہی ہے جیسے اسے شرط قرار دیا گیا ہے اور عادت (حکم شرعی کی) بنیاد ہے.
(البحر الرائق شرح كنز الدقائق ،كتاب الوکالۃ ، التوکیل بایفاء جمیع الحقوق، 150/7)

جن چیزوں کو عادۃ پھینک دیا جاتا ہو یا اس انداز میں ان کو چھوڑ دیا جاتا ہو جس سے سمجھا جائے کہ مالک کسی دوسرے کے لیئے ان چیزوں کو لے کر استعمال کرنے پر راضی ہے، تو ایسی چیزوں کو لے کر اپنے استعمال میں لانا جائز ہے چناچہ فتاویٰ شامی میں ہے : ” فيجوز أخذه؛ لأنه مما يرمى عادة فيصير بمنزلة المباح ولا كذالك الجوز ” ترجمہ : پس اس (گٹھلی وغیرہ) کو لینا جائز ہے، کیونکہ یہ ان چیزوں میں سے ہے جن کو عادۃ پھینک دیا جاتا ہے، پس یہ مباح کے درجے میں ہے (یعنی ایسی چیزیں جنکو پھینک دیا جاتا ہے انہیں لینا جائز ہے) اور اخروٹ کا معاملہ ایسا نہیں ہے (یعنی اخروٹ مباح کے درجے میں نہیں ہیں)
(الدر المختار وحاشية ابن عابدين ، کتاب اللقطۃ ،4/284)

جد الممتار میں اسکے تحت اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمتہ فرماتے ہیں: ” ولا كذلك الجوز فانه ليس مما يتسارع اليه الفساد، ولا مما يرمى به عادة، فلم يدل الدليل على الأباحة حتى لو وجد الدليل كان مباحا أيضاً كما لو تركه صاحبه تحت الأشجار على جهة الأعراض بحيث علم أنه يرضى بآخذه ولا يزاحم أخذه فهو حينئذ بمنزلته اى بمنزلة النوى فى كونه مباحا، لأن المدار على دليل الأباحة، وقد وجد” ترجمہ : اور اخروٹ کا معاملہ ایسا نہیں ہے، (یعنی اخروٹ کو لینا مباح نہیں) کیونکہ یہ ان چیزوں میں سے نہیں جن میں فساد جلدی طاری ہو اور نہ ہی یہ ان چیزوں سے ہے جن کو عادۃ پھینک دیا جاتا ہے پس اخروٹ کے مباح ہونے پر کوئی چیز دلالت نہیں کرتی، حتی کہ اگر کوئی اباحت کی دلیل پائ گئی تو اخروٹ بھی مباح ہوں گے جیسے اگر مالک نے بطور اعراض اخروٹ درخت کے نیچے چھوڑ دیے کہ وہ ان کو لینے پر راضی ہے اور لینے والے سے مزاحمت بھی نہ کرے گا تو اس صورت میں اخروٹ لینا بھی گٹھلی کی طرح مباح ہی ہو گا، کیونکہ اس معاملہ میں دارومدار دلیلِ اباحت پر ہے، اور وہ (مباح ہونے کی دلیل) پائ گئی (یعنی اب ان کو لے کر استعمال کرنا بھی جائز ہو گا)
( جد الممتار علی رد المحتار،کتاب اللقطہ، جلد 5 ، صفحہ 418 ، مکتبۃالمدینہ)

در مختار میں ہے : ” إذا ما ذكيت شاة فكلها سوى سبع ففيهن الوبال” ترجمہ : جب بکری ذبح کی جائے تو سات اجزاء جن میں وبال ہے ان کے علاوہ سب اجزاء کو کھاؤ.
(الدر المختار وحاشية ابن عابدين، کتاب الخنثی ، مسائل شتی، 759/6)

مجمع الأنهر میں ہے : ” وَيُبَاعُ عَظْمُهَا) أَيْ الْمَيْتَةِ (وَيُنْتَفَعُ بِهِ) أَيْ بِعَظْمِهَا.
(وَكَذَا عَصَبُهَا وَقَرْنُهَا وَصُوفُهَا وَشَعْرُهَا وَوَبَرُهَا) لِطَهَارَةِ هَذِهِ الْمَذْكُورَاتِ ” ترجمہ : اور مردہ جانور کی ہڈی کو بیچا جا سکتا ہے اور اس سے نفع بھی اٹھایا جا سکتا ہے ایسے ہی اسکے پٹھے سینگ، اون، بال وغیرہ (کو بھی بیچا اور نفع اٹھایا جا سکتا ہے)، ان مذکورہ چیزوں کے پاک ہونے کی وجہ سے.
(مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر، کتاب البیوع، باب بیع الفاسد ،2/59)

2- اگر یہ کان و سینگ قربانی کے جانوروں کے ہیں تو اگر قربانی کا مالک، قصاب وغیرہ کو اجرت کے علاوہ یہ چیزیں بطور ہدیہ یا صدقہ دے تو لے کر فروخت کرنے اور استعمال کرنے میں حرج نہیں.
(نوٹ) خیال رہے اجتماعی قربانی والی صورت میں قربانی کا اہتمام کرنے والوں کی اجازت کافی نہیں بلکہ مالک یا حصہ داروں کی اجازت ضروری ہے کیونکہ قربانی کا جانور ان کی ملکیت نہیں بلکہ بمع گوشت پوست تمام جانور ان کے پاس امانت ہے، بے اذنِ مالک انہیں کسی کو دینے کی اجازت نہیں.

قربانی کے گوشت وغیرہ کے متعلق حدیث میں ہے : “كُلُوا وَأَطْعِمُوا وَادَّخِرُوا ” ترجمہ : کھاؤ اور کھلاؤ اور اٹھائے رکھو.
( صحيح البخاري، کتاب الأضاحی ، باب ما یؤکل من أضاحی، 103/7]
قربانی کرنے کے بعد قربانی کے اجزاء کے حوالے سے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمتہ فتاوی رضویہ میں فرماتے ہیں : ” اصل یہ ہے کہ اراقہ دم سے اقامت واجب کے بعد اجزائے اضحیہ سے صرف تمول ممنوع ہے خاص تصدق ضروری نہیں بلکہ جمیع انواع خیر کہ مثل تصدق قربت ہیں، سب جائز ہے۔ اور بلا بیع خود اپنے تصرف میں لانا دیگر احباب اغنیاء کو ہدیہ دینا بھی جائز۔”
(فتاویٰ رضویہ ، جلد 20 ، صفحہ 471 ، رضا فاؤنڈیشن لاہور)
(والله تعالى اعلم بالصواب)

کتبہ : ابو الحسن حافظ محمد حق نواز مدنی

اپنا تبصرہ بھیجیں