امام پہلی ہی رکعت میں بیٹھ گیا پھر لقمہ ملنے پر کھڑا ہوا تو سجدہ سہو واجب ہوگا یا نہیں؟

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے کے بارے میں کہ تراویح میں اگر امام پہلی ہی رکعت میں بیٹھ گیا پھر لقمہ ملنے پر کھڑا ہوا تو سجدہ سہو واجب ہوگا یا نہیں؟ بینوا توجروا۔

الجواب بعون الملک الوھاب اللہم ھدایة الحق والصواب

پوچھی گئی صورت میں اگر امام پہلی ہی رکعت میں بیٹھ گیا لیکن ایک رکن کی ادائیگی کی مقدار سے پہلے پہلے لقمہ ملنے پرفوراً کھڑا ہوگیا، تو واجب ترک نہ ہوا، لہٰذا سجدہ سہو واجب نہ ہوگا۔ کیونکہ نماز میں پہلی اورچار رکعت والی میں تیسری رکعت میں نہ بیٹھناواجب ہے، یہاں رکن سے مراد تین تسبیح (سبحان اللہ کہنے) کی مقدار ہے اگرچہ تین تسبیح سے کم بھی بلا عذر نہیں بیٹھنا چاہیے، لیکن ترکِ واجب تین تسبیح کی مقداربیٹھنے پر ہی متحقق ہوگا، اس سے کم پر نہیں۔

اور اگر ایک رکن کی ادائیگی کا وقت گزر چکا اگرچہ التحیات نہ پڑھی ہو تو چونکہ واجب کا ترک ہوا، لہٰذاسجدہ سہو واجب ہوگا۔ اور ایسی صورت میں اگر امام لقمہ لے گا تو امام اور تمام مقتدیوں کی نماز فاسد ہوجائے گی کیونکہ جب امام پہلی رکعت میں قعدہ میں ایک رکن کی ادائیگی کی مقدار بیٹھ چکا تو اب لقمہ دینے کا محل نہیں رہا کہ ایک رکن کی ادائیگی کی مقدار بیٹھنے سے سجدۂ سہو واجب ہوچکا، اب اس سے زائد کسی خلل کا اندیشہ نہیں رہا، جس سے بچنے کے لئے لقمہ کی اجازت ہو تو مقتدی کا لقمہ دینا اور امام کا لقمہ لینا محض بے محل ہوگا اور بے محل لقمہ دینے والے کی نماز فاسد ہوجاتی ہے۔ اور ایسا لقمہ لینے سے امام کی نماز بھی فاسد ہوجاتی ہے لہٰذا بے محل لقمہ لینے سے جب امام کی نماز فاسد ہوگی تو اس کے پیچھے تمام مقتدیوں کی نماز بھی فاسد ہوجائے گی۔

لقمہ سے متعلق سیدی اعلی حضرت الشاہ امام احمدرضا خان علیہ رحمۃ الرحمن ارشاد فرماتے ہیں:’’ اور اگر غلطی ایسی ہے جس سے واجب ترک ہو کر نماز مکروہ تحریمی ہو تو اس کا بتانا ہرمقتدی پر واجب کفایہ ہے۔ اگر ایک بتادے اور اس کے بتانے سے کاروائی ہو جائے سب پر سے واجب اتر جائے گا ورنہ سب گنہگار رہیں گے ۔
فان قیل لہ مصلح آخر وھو سجود السهو فلا یجب الفتح عینا قلت بلی فان ترک الواجب معصیۃ وان لم یاثم بالسھو ودفع المعصیۃ واجب ولا یجوز التقریر علیھا بناء علی جابر یجبرھا کمالا یخفی۔
اگر یہ کہا جائے کہ یہاں اصلاح کی دوسری صورت، بصورت سجدہ سہو موجود ہے تو یہاں لقمہ دینا واجب نہ ہو گا۔ قلت :کیوں نہیں،کیونکہ ترک واجب گناہ ہے اگرچہ امام سہو سے گنہگار نہیں ہو تا اور گناہ سے بچنا ضروری ہے تو معصیت پر اثبات اس لیے کہ کسی دوسرے سے اس کا ازالہ کر لیا جائے گا، جائز نہیں جیسا کہ ظاہر ہے۔
(فتاوی رضویہ،ج7،ص280 تا281،رضا فاؤنڈیشن،لاهور)

در مختار میں نماز کے واجبات کے بیان میں ہے:‘‘وترک قعود قبل ثانیۃ او رابعۃ ’’اور دوسری یا چوتھی رکعت سے پہلے قعدہ نہ کرنا۔
(در مختار مع رد المحتار،ج2، ص201، مطبوعہ کوئٹہ)

رد المحتار میں ہے: ‘‘وکذا القعدۃ فی آخر الرکعۃ الاولی او الثالثۃ فیجب ترکھا ،ویلزم عن فعلھا ایضا تاخیر القیام الی الثانیۃ او الرابعۃ عن محلہ، وھذا اذا کانت القعدۃ طویلۃ، اما الجلسۃ الخفیفۃ التی استحبھا الشافعی فترکھا غیر واجب عندنا بل ھو الافضل کما سیاتی۔’’
اور اسی طرح پہلی یاتیسری رکعت کے آخر میں قعدہ تو اس کا ترک کرنا واجب ہےاور اس کے فعل (قعدہ کرنے) سے دوسری رکعت یا چوتھی رکعت کی طرف قیام کو اپنے محل سے موخر کرنا بھی لازم آئے گا اور یہ تب ہے جب قعدہ طویل ہو بہرحال جلسہ خفیفہ(تھوڑا بیٹھنا) جس کو امام شافعی نے مستحب قرار دیا ہے تو اس کا ترک ہمارے نزدیک واجب نہیں بلکہ وہ (ترک کرنا)افضل ہے جیسا کہ عنقریب آئے گا۔
(ردالمحتار،ج2،ص201،مطبوعہ کوئٹہ)

بہار شریعت میں نمازکے واجبات کے بیان میں ہے: ‘’دوسری سے پہلے قعدہ نہ کرنا اور چار رکعت والی میں تیسری پر قعدہ نہ ہونا۔ دو فرض یا دو واجب یا واجب فرض کے درمیان تین تسبیح کی قدر وقفہ نہ ہونا۔ملخصا’’
(بهارشریعت،ج1،ص519،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ،کراچی)

حبیب الفتاوی میں ہے کہ اگر امام عشاء کی نمازمیں تیسری رکعت میں بھول کر بیٹھ جائے مقتدی کے لقمہ دینے پر پھر اللہ اکبر کہہ کر کھڑا ہو تو کیا اس صورت میں سجدہ ٔ سہو کرنا لازم ہے؟جواب دیتے ہوئے فرمایا: اگر صورت مذکورہ میں امام تین تسبیح پڑھنے کی مقدار نہیں بیٹھا تھا کہ مقتدی کے لقمہ دینے پر کھڑا ہوگیا۔۔۔۔تواس صورت میں امام پر سجدہ سہو واجب نہ ہوا۔
( حبیب الفتاوی،جلد1، صفحہ 203، شبیر برادرز، لاہور)

مفتی جلال الدین امجدی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں :”جب مقتدی نے امر ناجائز کے لیے لقمہ دیا تو اس کی نماز فاسد ہوگئی پھر امام اس کے بتانے سے واپس پلٹا تو امام کی نماز بھی فاسد ہوگئی اور اس کے سبب کسی کی نماز نہیں ہوئی. ”
(فتاوی فیض الرسول ج1ص 386,شبیر برادرز لاہور)

وَاللّٰہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

کتبہ

محمد منور علی اعظمی بن محمد شریف اعظمی غفرلہ

اپنا تبصرہ بھیجیں