سودی رقم صدقہ کرنا

سوال یہ ہے کہ سودی رقم اگر باپ اپنے فقیر بیٹے کو صدقہ کردے تو کیا درست ہے.

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ

اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

اگر کسی کے پاس سودی رقم ہو تو اس کے لئیے حکم شرعی یہ ہے کہ اس نے جن سے سودی رقم لی انہیں وآپس کرے وہ نہ ہوں تو ان کے وارثوں کو،وہ بھی نہ ملیں تو کسی شرعی فقیر پر صدقہ کر دے ، نیز ایسا مال مالک و ورثاء وغیرہ کو دیے بغیر ابتداء صدقہ کرنے کا بھی اختیار ہے البتہ بہتر یہی ہے کہ اصل مالک یا ورثاء تک پہنچائے لہذا صورت مستفسرہ میں باپ کے لیے شرعی حکم یہ ہے کہ جن جن سے اس نے سود لیا انہیں وآپس کرے وہ نہ ملیں تو ان کے وارثوں کو دے، یا پھر کسی فقیر پر صدقہ کر دے، اور اگر باپ کا اپنا بیٹا شرعی فقیر ہے تو اسے دینا بھی درست ہے۔

چنانچہ تبیین الحقائق میں ہے “ويردونها على أربابها إن عرفوهم، وإلا تصدقوا بها؛ لأن سبيل الكسب الخبيث التصدق إذا تعذر الرد على صاحبه” ترجمہ:اور خبیث کمائ کو ان کے مالکوں کو لوٹائیں گے اگر ان کو جانتے ہیں ورنہ اس مال کو صدقہ کریں گے کیونکہ خبیث کمائ جب مالک کو لوٹانا مشکل ہو تو اسے صدقہ کرنے کا حکم ہے۔(تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق،ج 6،ص 27)

فتاوی رضویہ شریف میں ہے ” سود میں جو مال ملتا ہے وہ اگرچہ سود خور کے قبضے میں آ کر اس کی ملک ہو جاتا ہے… البتہ وہ ملک خبیث ہوتی ہے اس پر فرض ہوتا ہے کہ وہ ناپاک مال جن جن سے لیا ہے انہیں وآپس دے وہ نہ رہے ہوں تو ان کے وارثوں کو دے وہ بھی نہ ملیں تو تصدق کر دے، بہر حال اپنے حوائج میں اسے خرچ کرنا حرام ہوتا ہے

(فتاوی رضویہ، جلد 7،ص 379، رضا فاؤنڈیشن لاہور)

ایک اور مقام پر فرماتے ہیں” زر حرام والے کو یہ حکم ہوتا ہے کہ جس سے لیا اسے واپس دے وہ نہ رہا اس کے وارثوں کو دے پتہ نہ چلے تو فقراء پر تصدق کرے یہ تصدق بطور تبرع و احسان وخیرات نہیں بلکہ اس لیے کہ مال خبیث میں اسے تصرف حرام ہے اور اس کا پتا نہیں جسے وآپس دیا جاتا لہذا دفع خبث و تکمیل توبہ کے لئے فقراء کو دینا ضرور ہوا۔(فتاوی رضویہ، جلد 7،ص 352، رضا فاؤنڈیشن لاہور)

فتاویٰ رضویہ شریف میں ہے ” یہاں (سود وغیرہ  عقود فاسدہ میں) جس سے لیا بالخصوص انہیں وآپس کرنا فرض نہیں بلکہ اسے اختیار ہے کہ اسے وآپس دے خواہ ابتداء تصدق کرے…. ہاں جس سے لیا انہیں یا ان کے ورثاء کو دینا یہاں بھی اولی ہے، کما نص علیہ فی الغنیہ والخیریہ والھندیہ وغیرھا۔(فتاوی رضویہ، جلد 23،ص 551-552، رضا فاؤنڈیشن لاہور)

اور صدقہ کرنے کی صورت میں ایسا مال اپنے اصول و فروع پر تصدق کرنا درست ہے چنانچہ فتاوی عالمگیری میں ہے “له مال فيه شبهة اذا تصدق به على ابيه يكفيه ذالك ولا يشترط التصدق على الاجنبى وكذا اذا كان ابنه معه حين كان يبيع ويشتري و فيها بيوع فاسدة فوهب جميع ماله لابنه هذا خرج من العهدة” ترجمہ : کسی کے پاس مشکوک و مشتبہ مال ہو، جب وہ اپنے والد کو صدقہ کر دے تو یہ کافی ہے، لہذا کسی اجنبی پر صدقہ کرنا شرط نہیں اسی طرح جب اسکا بیٹا اس کے ساتھ بیچتا خریدتا ہو اور اس کاروبار میں فاسد بیوع بھی ہوں پھر وہ شخص اپنا سارا مال اپنے بیٹے کو دے دے تو وہ ذمہ داری سے بری ہو جائے گا.

(فتاوی ہندیہ، کتاب الکراہیۃ ،الباب الخامس عشر فی الکسب ،ج 5 ،ص 429 ،دار الکتب العلمیہ)

فتاوی ہندیہ کی اس عبارت کے متعلق اعلی حضرت فرماتے ہیں ” اقول فإذا کان هذا فیما قد ملکہ ملكا ففيما لم يملكه أظهر وأولى” ترجمہ: جب یہ (ہندیہ میں مذکورہ حکم بیٹے وغیرہ کوصدقہ کرنا) ان أموال میں ہے جنکا یہ مالک ہے (سود و عقود فاسدہ سے حاصل مال اگرچہ یہ ملک خبیث ہے) تو جنکا یہ مالک نہیں(رشوت چوری غصب وغیرہ سے کمایا مال) ان میں اسی حکم کا جاری ہونا زیادہ ظاہر و زیادہ بہتر ہے.(فتاوی رضویہ، جلد 23،ص 549، رضا فاؤنڈیشن لاہور)

فتاوی رضویہ شریف میں ایک طائفہ عورت کے زر حرام کو اپنی ماں پر تصدق کرنے کے حوالے سے اعلی حضرت فرماتے ہیں ” ماں ہونا اس صدقہ واجبہ کے منافی نہیں کہ یہ صدقہ خود اسکے اپنے مال کا نہیں  كما علم بل أموال ضوائع لا يعرف اربابها فيحل لها التصدق بها على ابيها وابنها وامها وبنتها (یعنی جیسا کہ معلوم ہو گیا بلکہ یہ اموال ضائعہ کی قسم سے ہے کہ جن کے مالک نامعلوم ہیں لہذا ان مالوں کا اپنے ماں باپ اور بیٹے بیٹی پر خیرات کر دینا حلال ہے۔(فتاوی رضویہ، جلد 23،ص 549، رضا فاؤنڈیشن لاہور)

آخر میں یہ بات ضرور ذہن نشین ہونی چاہیے کہ مذکورہ فتوے کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ سودی لین دین کر کے بندہ فقراء یا اپنے عزیزوں میں سودی رقم تقسیم کرنا شروع کر دے کیونکہ سود لینا حرام ہے ، قرآن مجید میں ہے “وَ اَحَلَّ اللّٰهُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰواؕ” ترجمہ : اللہ تعالیٰ نے بیع کو حلال فرمایا اور سود کو حرام فرمایا۔(البقرۃ، آیت نمبر 275)

سنن ابن ماجہ میں ہے :”عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: الربا سبعون حوبا، أيسرها أن ينكح الرجل أمه” ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ  سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ  تعالٰی علیہ وسلم   نے فرمایا: ’’سود (کا گناہ) ستر حصہ ہے، ان میں سب سے کم درجہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی ماں  سے زنا کرے۔‘‘(سنن ابن ماجہ ‘‘ ،کتاب التجارات،باب التغلیظ في الربا،حدیث2274)

(والله تعالى اعلم بالصواب)

کتبہ : ابو الحسن حافظ محمد حق نواز مدنی

( مورخہ8 مارچ 2022 بمطابق4شعبان المعظم1443ھ بروز منگل)

اپنا تبصرہ بھیجیں