رمضان کی ترویح نہ پڑنے سے گناہ

کیا رمضان کی ترویح نہ پڑنے سے گناہ ہوتے ہیں ؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ

اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

نمازِ تراویح سنت مؤکدہ ہے، اور عادۃ سنت مؤکدہ چھوڑنے والا گنہگار ہوتا ہے لہذا نماز تراویح چھوڑنے کی عادت بنانے والا گنہگار ہوگا، البتہ ایک آدھ یا دو بار چھوڑنے پر گناہ نہیں ہاں برا ضرور ہے.

در مختار میں ہے (التراويح سنة) مؤكدة لمواظبة الخلفاء الراشدين (للرجال والنساء) إجماعا ” ترجمہ: تراویح مردوں و عورتوں کے لیے بالاجماع سنت مؤکدہ ہے خلفائے راشدین کے اس پر ہمیشگی اختیار کرنے کی وجہ سے.

(الدر المختار شرح تنوير الأبصار ، کتاب الصلاۃ ، باب الوتر والنوافل صفحة ٩٤)

علامہ بدرالدین عینی علیہ الرحمتہ فرماتے ہیں “وروى الحسن عن أبي حنيفة رحمه الله أن التراويح سنة لا يجوز تركها، وقال الشهيد: هو الصحيح. وفي جوامع الفقه  التراويح سنة مؤكدة ” ترجمہ : امام حسن علیہ الرحمتہ نے امام اعظم ابو حنیفہ علیہ الرحمتہ سے روایت کیا ہے کہ تراویح سنت ہے اسکو ترک کرنا جائز نہیں، اور امام صدر الشہید علیہ الرحمتہ فرماتے ہیں یہی صحیح ہے، اور جوامع الفقہ میں ہے تراویح سنت مؤکدہ.

(البناية شرح الهداية، كتاب الصلاۃ ،فصل فی قیام شھر رمضان، حکم صلاۃ التراويح ،550/2)

فتاوی رضویہ شریف میں ہے ” تراویح سنت مؤکدہ است ونزد محققین بترک سنت مؤکدہ نیز آثم شود خاصہ چوں ترک را  عادت گیرد” یعنی تراویح سنت مؤکدہ ہے، محققین کے نزدیک سنت مؤکدہ کا تارک گنہگار ہے خصوصا جب ترک کی عادت بنا لے.

(فتاوی رضویہ ،ج 7 ، ص 458، رضا فاؤنڈیشن لاہور)

بہار شریعت میں ہے “تراویح مرد و عورت سب کے لیے بالاجماع سنت مؤکدہ ہے اس کا ترک جائز نہیں

(بہار شریعت، ج1،حصہ چہارم، ص693،مکتبۃ المدینہ ،کراچی)

علامہ شامی رحمۃاللہ علیہ”اصرار” کے متعلق فرماتے ہیں:” وفي شرح المنار لابن نجيم عن التقرير للأكمل أن حد الإصرار أن تتكرر منه تكررا يشعر بقلة المبالاة بدينه إشعار ارتكاب الكبيرة بذلك اهـ ومقتضاه أنه غير مقدر بعدد بل مفوض إلى الرأي والعرف والظاهر أنه بمرتين لا يكون إصرارا“ ترجمہ:علامہ ابن نجیم رحمۃاللہ علیہ کی “شرح المنار” میں علامہ اکمل رحمۃاللہ علیہ کی”التقریر” کےحوالے سے ہے کہ اصرار کی تعریف یہ ہے کہ    توکسی کام کااس طور پر تکرار کرے  ،جو دین سے لاپرواہی کا ایسا شعور دلائے جیسا کبیرہ کا ارتکاب کرنے میں لاپرواہی کا شعور ہوتا ہے۔اور اس کا تقاضا یہ ہے کہ اصرار ہونے کے لیے کوئی عددمقرر نہیں بلکہ وہ رائے اور عرف کے سپرد ہے۔اور ظاہر یہ ہے کہ دومرتبہ  ترک کرنا  ،ترک پراصرانہیں ہے.

(ردالمحتار،کتاب الحج، جلد2،صفحہ457، مطبوعہ بیروت)

فتاوی شامی میں ایک اور مقام پر ہے “قلت:  لكن كونه سنة مؤكدة لا يستلزم الإثم بتركه مرة واحدة بلا عذر” ترجمہ : میں کہتا ہوں کسی فعل کا سنت مؤکدہ ہونا، ایک مرتبہ بغیر عذر کے اسکو ترک کرنے پر گناہ کو مستلزم نہیں.

(الدر المختار وحاشية ابن عابدين رد المحتار، کتاب الصلاۃ ،باب واجبات الصلاۃ، 474/1)

اور فتاویٰ رضویہ شریف میں ہے ” صحیح وہی ہے جو ہم اوپر بیان کر آئے کہ سنتِ مؤکدہ کا ایک آدھ بار ترک گناہ نہیں ہاں بُرا ہے اور عادت کے بعد گناہ وناروا ہے۔

(فتاویٰ رضویہ ، جلد1 ، حصہ2 ،ص 912 ، رضا فاؤنڈیشن لاہور )

(والله تعالى اعلم بالصواب)

کتبہ : ابو الحسن حافظ محمد حق نواز مدنی

( مورخہ 11 اپریل 2022 بمطابق 9 رمضان المبارک 1443ھ بروز پیر )

اپنا تبصرہ بھیجیں