کرنسی کی بیع

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین مسئلہ ذیل میں کہ ایک شخص آن لائن اپنے بینک اکاؤنٹ سے جب ڈالر کا ریٹ کم ہو تو کچھ ڈالرز اپنے بینک سے اپنے اکاؤنٹ میں خرید کر رکھ لیتا ہے، پھر جب ڈالر کا ریٹ بڑھتا ہے تو ان کو اسی بینک کو آن لائن بیچ کر پیسے واپس لے لیتا ہے، اس کا ایسا کرنا کیسا؟ کیا یہ سود میں تو داخل نہیں ؟۔ بینوا توجروا۔

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب۔

جواب جاننے سے پہلے یہ سمجھ لیجیے کہ نوٹ ( یعنی آج کل کی رائج کرنسی ) ثمنِ اصطلاحی اور معدودی چیز ہے، اور ہر ملک کی کرنسی ہمارے نزدیک ایک ہی جنس ہے، لہذا جب ایک ملک کی کرنسی کے بدلے دوسرے ملک کی کرنسی کمی زیادتی کے ساتھ ہاتھوں ہاتھ ( یعنی نقد ) بیچی جائے تو جائز ہے اور اگر ادھار بیچی جائے تو جائز نہیں کہ سود میں داخل ہے۔

اگر کرنسی کی بیع نقد ہو تو وہ سود نہیں کیونکہ سود کی علت یہ ہے کہ قدر و جنس ایک ساتھ پائی جائے۔ اگر قدر و جنس ایک ساتھ پائی جائے تو نقد و ادھار دونوں صورتوں میں کمی بیشی حرام ہے اور اگر ایک علت پائی جائے اور دوسری نہ پائی جائے تو اب ہاتھوں ہاتھ کمی زیادتی جائز ہے ادھار جائز نہیں۔ نوٹ ایک جنس تو ہیں مگر قدری نہیں بلکہ معدودی ہیں لہذا ان کی خرید وفروخت میں کمی زیادتی ہاتھوں ہاتھ ( یعنی نقد ) تو جائز ہو گی ادھار جائز نہیں ہو گی۔

 اب سوال میں ذکر کی گئی صورت کا جواب یہ ہے کہ جب بینک سے کرنسی کی خرید و فروخت کرتے ہیں اگر اس صورت میں فوراً ہی رقم آپ کے بینک اکاؤنٹ میں منتقل ہو جاتی ہے تو اب کمی بیشی کے ساتھ بیچنا جائز ہے اور اگر فوراً منتقل نہیں ہوتی تو اب جائز نہیں۔

 ہدایہ میں ہے: ’’ یجوز بیع الفلس بالفلسین بأعیانھما ‘‘۔

ترجمہ: ایک معین سکے کی بیع دو معین سکوں کے ساتھ جائز ہے۔ ( الھدایہ فی شرح بدایۃ المبتدی، جلد 03، صفحہ 63، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی- بیروت- لبنان )۔

    اسی میں ہے: ’’ إذا وجد أحدھما و عدم الآخر حل التفاضل و حرم النساء مثل أن یسلم ھرویاً فی ھروی أو حنطۃ فی شعیر ‘‘۔

ترجمہ: جب سود کی دونوں علتوں ( قدر و جنس) میں سے ایک پائی جائے اور دوسری نہ پائی جائے، تو زیادتی جائز ہے اور ادھار حرام ہے، جیسے ہرات کے بنے ہوئے کپڑے ہرات ہی کے کپڑے کے بدلے بیچنا یا گندم کو جَو کے بدلے بیچنا۔ ( الھدایہ فی شرح بدایۃ المبتدی، جلد 03، صفحہ 62، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی- بیروت- لبنان )۔

سیدی اعلیٰ حضرت امامِ اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’ فاقول: اولا نص علماؤنا قاطبۃ ان علۃ حرمۃ الربا القدر المعھود بکیل او وزن مع الجنس فان وجدا حرم الفضل والنسأ وان عدما حلال وان وجد احدھما حل الفضل و حرم النسأ وھذہ قاعدۃ غیر منخرمۃ وعلیھا تدور جمیع فروع الباب “.

ترجمہ: ( تو میں کہتا ہوں ) اولاً ہمارے جمیع علماء رحمہم اللہ تعالیٰ نے تصریح فرمائی کہ حرمتِ ربا کی علت وہ خاص اندازہ یعنی ناپ یا تول ہے اتحاد جنس کے ساتھ، تو اگر قدر و جنس دونوں پائی جائیں تو بیشی اور ادھار دونوں حرام ہیں اور اگر وہ دونوں نہ پائی جائیں تو حلال ہیں اور اگر دونوں میں سے ایک پائی جائے، تو بیشی حلال اور ادھار حرام ہے اور یہ ایک عام قاعدہ ہے جو کہیں منتقض نہیں اور باب ربا کے جمیع مسائل اسی پر دائرہیں ‘‘۔ ( فتاوی رضویہ، جلد 17،صفحہ 446، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاھور )۔

ایک اور مقام پر نوٹ میں قدَر نہ ہونے بلکہ عددی ہونے کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’ اتحادِ جنس سے تفاضل حرام نہیں ہوجاتا، اتحادِ قدر بھی تو لازم ہے، نوٹ سرے سے قدر ہی نہیں رکھتا کہ نہ مکیل ہے، نہ موزون، بلکہ معدود ہے ‘‘۔ (فتاوی رضویہ، جلد 17، صفحہ 527، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاھور )۔

 مجلس شرعی بریلی کے فقہی سیمنیار کے فیصلے میں ہے: ’’ ممالک مختلفہ کے کرنسی نوٹ اگرچہ مختلف ناموں سے موسوم ہوں نوعِ واحد ہیں کہ ان سب کی اصل کاغذ ہے اور اغراض و مقاصد بھی متحد ہیں یعنی قوت خرید، اگرچہ کرنسی نوٹ مالیت میں مختلف ہیں اور یہ اختلاف تقویم کی قلت و کثرت کا ہے، نہ کہ نوع کا، یہ ایک ملک کے مختلف المالیۃ کرنسی نوٹ کی طرح ہیں ‘‘۔ ( مجلس شرعی بریلی کا پانچواں فقھی سیمینار )۔

 مجلس شرعی اشرفیہ مبارک پور کے فیصلہ میں ہے: ” دو ملکوں کی کرنسیاں اپنی حقیقت کے لحاظ سے ایک کاغذ کا ٹکڑا ہیں اور مقصود کے لحاظ سے دونوں ہی ثمن اصطلاحی ہیں،اس لیے دونوں کی جنس ایک ہے ‘‘۔

اسی میں کرنسی نوٹ کی کرنسی نوٹ سے کمی بیشی کے ساتھ نقد خرید و فروخت جائز، جبکہ ادھار ناجائز ہونے سے متعلق ہے: ’’ دو ملکوں یا ایک ہی ملک کی کرنسیوں کی باہم خرید و فروخت صرف نقد جائز ہے گو کہ کمی بیشی کے ساتھ ہو اور اگر کسی طرف ادھار ہو تو ناجائز ہے کہ یہ جنس کے بدلہ جنس کی ادھار بیع ہے جو ایک طرح کا سود ( ربا النسیئہ ) ہے‘‘۔ ( چوتھا فقھی سیمینار، مجلس شرعی مبارکپور، 30 مئی 2004 )۔

مفتی فضیل صاحب دامت برکاتہم العالیہ لکھتے ہیں: ” کرنسی نوٹ ایک مُلک کے ہوں تو بلاشبہ ایک ہی جنس ہیں اور اگرجدا جدا ملک کے ہوں تب بھی ایک ہی جنس ہونے کا قول ہمارے نزدیک معتمد ہے، جیسا کہ بہت سے معتمد فقہائے کرام بلکہ ہند مبارکپور اشرفیہ کی مجلس شرعی اور مجلس شرعی بریلی شریف کا طے شدہ فیصلہ بھی یہی ہے، لہذا مطلقاً کرنسی نوٹ چاہے ایک ملک کے ہوں یا جدا جدا، ایک ہی جنس ہوتے ہیں۔ نیز کرنسی نوٹ قدَری چیز نہیں یعنی اسے ناپا یا تولا نہیں جاتا کہ مکیلی یا موزونی ہو بلکہ عددی یعنی گِن کر دی جانے والی چیز ہے اور قاعدہ شرعیہ ہے کہ خرید و فروخت میں دو چیزوں کے مابین سود کی علت ان میں قدَر و جنس کا پایا جانا ہے، قدر سے مراد مکیلی یا موزونی ہونا ہے۔ اگر قدَر و جنس دونوں پائی جائیں تو کمی بیشی اور ادھار دونوں حرام ہوتے ہیں اور اگر قدرو جنس میں سے ایک چیز پائی جائے، جبکہ دوسری موجود نہ ہو، تو کمی بیشی جائز اور ادھار حرام ہوتا ہے اور اگر دونوں چیزیں نہ پائی جائیں تو کمی بیشی بھی جائز ہے اور ادھار بھی جائز ہے، لہٰذا کرنسی نوٹ کی کرنسی نوٹ سے کمی بیشی کے ساتھ نقد خرید و فروخت جائز ہے، جبکہ ادھار جائز نہیں۔ ( فتویٰ نمبر Kan-15460، دارالافتاء اہلسنت دعوتِ اسلامی )۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

 کتبہ: سگِ عطار ابو احمد محمد رئیس عطاری بن فلک شیر غفرلہ

ابو احمد مفتی انس رضا قادری دامت برکاتہم العالیہ

( مورخہ 06 رجب المرجب 1443 ھ بمطابق 07 فروری 2022ء بروز منگل )۔

اپنا تبصرہ بھیجیں