چھوٹی داڑھی والے کا امامت کروانا

سوال یہ کہ لوگ کہتے ھیں امامت کے لیے آواز اچھی ھونی چاہیے تلفظ ٹھیک ھوں تو امامت کرا سکتے ھو چاہے داڑھی چھوٹی ہی کیو نہ ھو۔۔کیا یہ درست ھے۔

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ

اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

” چاہے داڑھی چھوٹی ہی کیوں نہ ہو” سے مراد اگر ایسا امام ہے جو داڑھی منڈواتا ہے یا کتروا کر ایک مشت سے کم کرتا ہے تو لوگوں کا اس کے متعلق یہ کہنا کہ یہ امامت کرا سکتا ، درست نہیں کیونکہ داڑھی منڈوانا یا کتروا کر ایک مٹھی سے کم کرنا ناجائز و حرام ہے، ایسا شخص فاسق معلن ہے، فاسق معلن کو امام بناناگناہ ہے ،اسکے پیچھے نماز پڑھنامکروہ تحریمی ہے اور اگر اس کے پیچھے نماز پڑھ لی  تو اس نماز کو دوبارہ پڑھنا واجب ہے، نیز اگر سب فاسق معلن ہوں تو سب تنہا تنہا نماز پڑھیں.

در مختار میں ہے  “يحرم على الرجل قطع لحيته ” ترجمہ: مرد پر اپنی داڑھی کاٹنا حرام ہے. (الدر المختار مع رد المحتار،كتاب الحظر والاباحة، 6/407)

درر شرح غرر میں ہے ”وأما الأخذ من اللحیۃ وھی دون القبضۃ کما یفعلہ بعض المغاربۃ ومخنثۃ الرجال فلم یبحہ أحد وأخذ کلھا فعل مجوس الأعاجم والیھود والھنود وبعض أجناس الإفرنج“ترجمہ: بعض مغربی اور ہیجڑے لوگوں کی طرح داڑھی کاٹ کر ایک مٹھی سے کم کردینے کو کسی فقیہ نے بھی جائز نہیں کہا اور داڑھی مکمل کاٹ دینا عجمی مجوسیوں ، یہودیوں ،ہندوں اور بعض انگریزوں کا طریقہ ہے۔ ( درر شرح غرر ، کتاب الصیام ،فصل حامل او مرضع خافت، ج1،ص208 ،داراحیاء الکتب العربیہ ،بیروت)

امام اہلسنت امام احمد رضاخان علیہ رحمۃ الرحمن ارشاد فرماتے ہیں:”داڑھی منڈانا اور کتروا کر حدِ شرع سے کم کرانا ،دونوں حرام وفسق ہیں اور اس کا فسق بالاعلان ہونا ظاہر کہ ایسوں کے منہ پر جلی قلم سے فاسق لکھا ہوتا ہے ۔“ (فتاوی رضویہ،جلد 06،صفحہ505، رضافاؤنڈیشن،لاهور)

فاسق معلن کو امام بنانے کے متعلق علامہ محمد ابراہیم بن حلبی (متوفی 956ھ) فرماتے ہیں:” لوقدموا فاسقا یاثمون ، بناء علی ان کراھۃ تقدیمہ کراھۃ تحریم“ ترجمہ:اگر لوگوں نے فاسق کو امام بنایا، تو وہ گناہ گار ہوں گے کیونکہ اس کو مقدم کرنا مکروہ تحریمی ہے ۔ (غنیہ المستملی شرح منیۃ المصلی، جلد1،صفحہ442، کوئٹہ)

علامہ علاؤالدین حصکفی رحمۃاللہ تعالی علیہ درمختار میں فرماتے ہیں:”کل صلاۃ ادیت مع کراھۃالتحریم تجب اعادتھا“ ترجمہ: ہر وہ نماز جو کراہت تحریمی سے ادا کی جائے  اس کا اعادہ واجب ہے ۔ (درمختار،کتاب الصلوۃ ،جلد2، صفحہ182،مطبوعہ کوئٹہ )

امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں:”داڑھی ترشوانے والے کو امام بنانا گناہ ہے اور اس کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی کہ پڑھنی گناہ اور پھیرنی واجب ۔“ (فتاویٰ رضویہ ،جلد6، صفحہ603 ، رضا فاؤنڈیشن،لاهور)

جب سب داڑھی منڈے ہوں تو تنہا تنہا نماز پڑھیں چنانچہ اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمتہ فرماتے ہیں : امام اگر اعلانیہ فسق و فجور کرتا ہے اور دوسرا کوئی امامت کے قابل نہ مل سکے تو مقتدی تنہا تنہا نماز پڑھیں “فإن تقديم الفاسق أثم والصلاة خلفه مكروهة تحريما والجماعة واجبة فهما فى درجة واحدة ودرء المفاسد اهم من جلب المصالح” یعنی فاسق کو مقدم کرنا گناہ ہے اور اسکے پیچھے نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہے اور جماعت واجب ہے پس دونوں ایک درجہ میں ہوئے اور مصالح کے  حصول سے مفاسد کو ختم کرنا زیادہ اہم ہے.

(فتاوی رضویہ ،ج6، ص600 ، رضا فاؤنڈیشن لاہور)

2 –  اور اگر ” چاہے داڑھی چھوٹی ہی کیوں نہ ہو” سے  لوگوں کی مراد یہ ہے کہ ابھی جسکے چہرے پر داڑھی پوری ایک مٹھی آئ ہی نہیں، تو ایسا شخص اگر امامت کا اہل ہو یعنی مسلمان ہو،عاقل ہو،بالغ ہو،شرعی معذور نہ ہو،صحیح القراۃ ہو، سنی صحیح العقیدہ ہو اورفاسقِ معلن نہ ہو ، تو اسکی امامت درست ہے، کیونکہ امامت کی صحت کا مدار بلوغت وغیرہ دیگر مذکورہ  شرائط پر ہے،نہ کہ داڑھی کے مکمل ایک مٹھی ہونے پر، البتہ خیال رہے کہ امامت کا اہل ہونے کی صورت میں بے ریش امام کے پیچھے پڑھی جانے والی نماز اگرچہ درست ہے،لیکن اگر وہ امرد یعنی پر کشش و خوبصورت لڑکا اور فساق کے لیے محلِ شہوت ہو ، تو اس کے پیچھے نماز مکروہِ تنزیہی یعنی ناپسندیدہ ہے.

نورالایضاح میں ہے:”شروط صحۃ الامامۃ للرجال الاصحاء ستۃ اشیاء الاسلام والبلوغ والعقل والذکورۃ والقراءۃ والسلامۃ من الاعذار“ ترجمہ : صحیح مردوں کی امامت کے صحیح ہونے کی چھ شرطیں ہیں :اسلام،بلوغ ،عقل، مرد ہونا، قراءت کا صحیح ہونا اور اعذار سے سلامت ہونا۔ (نورالایضاح مع الطحطاوی ، صفحہ287،مطبوعہ کراچی)

سیدی اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن امامت کی چند شرائط بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:”امام میں چند شرطیں ہیں: اولاً قرآنِ عظیم ایسا غلط نہ پڑھتا ہو ، جس سے نماز فاسد ہو۔دوسرے وضو،غسل،طہارت صحیح رکھتا ہو۔سوم سنی صحیح العقیدہ ہو،بدمذہب نہ ہو۔ چہارم فاسقِ معلن نہ ہو،اسی طرح اور امور منافیِ امامت سے پاک ہو۔ملخصا۔“ (فتاویٰ رضویہ،ج6، ص543،مطبوعہ رضا فاونڈیشن،لاھور)

سیدی اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن سے سوال ہوا”ھل تجوز الصلاۃ خلف الامرد الذی ھو ابن ستۃ عشر سنۃ(کیا سولہ سالہ امرد کے پیچھے نماز جائز ہوتی ہے)؟“اس کے جواب میں ارشاد فرمایا:”نعم تجوز ان لم یکن مانع شرعی لانہ بالغ شرعا و ان لم تظھر الاثار،نعم تکرہ ان کان صبیحا محل الفتنۃ کما فی رد المحتار عن الرحمتی (ہاں جائز ہے اگر کوئی مانعِ شرعی نہ ہو کیونکہ شرعا وہ بالغ ہے اگرچہ بلوغت کے آثار ظاہر نہ ہوئے ہوں،ہاں اگر وہ خوبصورت محلِ فتنہ ہو تو مکروہ ہو گی جیسا کہ رد المحتار میں علامہ رحمتی کے حوالے سے ہے)۔“ (فتاویٰ رضویہ،ج6، ص612، رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

فتاوی فیض رسول میں ہے ” زید اگر بالغ صحیح العقیدہ، صحيح الطہارۃ ،صحيح القراءة ہے اور اس میں کوئی وجہ مانع امامت نہیں تو اسکے پیچھے نماز ہو جائے گی اگرچہ ابھی داڑھی نہیں نکلی، ہاں اگر زید حسین و جمیل  اور خوبصورت ہو کہ فساق کے لیے محل شہوت ہو تو اسکی امامت خلاف اولی ہے” (فتاوی فیض رسول ،ج1 ، ص302)

(والله تعالى اعلم بالصواب)

کتبہ : ابو الحسن حافظ محمد حق نواز مدنی

ابو احمد مفتی انس رضا قادری دامت برکاتہم العالیہ

( مورخہ 2 اپریل 2022 بمطابق 29 شعبان المعظم1443ھ بروز ہفتہ )

اپنا تبصرہ بھیجیں