جس کے عقیدے کا پتا نہ ہو اس امام کے پیچھے نماز اور جمعہ پڑھنا

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ عرب امارات میں رہتا ہوں ادھر امام کا پتہ نہیں چلتا کیسا ہے۔یا کس مسلک کا ہے جبکہ میں حنفی بریلوی ہوں، ان کے پیچھے نماز اور جمعہ پڑھنا کیسا ہے؟

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

پوچھی گئی صورت کا حکم یہ ہے کہ جہاں آپ نماز پڑھنا چاہ رہے ہیں اگر وہاں کوئی شبہ کی وجہ موجود ہے مثلاً کسی سے سنا ہے کہ یہ امام بدمذہب ہے اگر چہ کہنے والا عادل نہ ہو یا وہاں اکثریت بدمذہبوں کی ہے تو ایسی صورت میں امام کے عقائد کی تصدیق کرنا ضروری ہے، اور اگر شبہ کی کوئی وجہ موجود نہ ہو تو اس امام کے پیچھے نماز پڑھیں لیکن اگر بعد میں ثابت ہوجائے کہ وہ امام بدمذہب تھا تو اگر اس کی بدمذہبی حد کفر کو پہنچتی ہو تو اعادہ فرض ورنہ واجب۔

دوسرا یہ کہ اگر امام ہے تو صحیح العقیدہ لیکن چار فقہی مسالک میں سے حنفی مسلک کے علاوہ کسی ایک کا پیروکار ہے تو اس صورت میں اس  امام کی اقتدا میں حنفی کی نماز اس وقت صحیح ہے، جب وہ مسائل طہارت و نماز میں حنفی مذہب کے ارکان و شرائط  کی رعایت کرتا ہو اور اختلاف کی جگہوں سے بچتا ہو، اس طرح کہ سبیلین کے علاوہ سے بھی اگر نجس چیز نکلے تو وضو کرلے، ماء مستعمل سے وضو نہ کرے اور نہ ایسے ٹھہرے ہوئے پانی سے وضو کرے جس میں نجاست پڑ گئی ہو۔ یا معلوم ہو کہ اس نماز میں حنفی مذہب کی رعایت کی ہے، اگر رعایت کرنا معلوم نہ ہو، اور نہ یہ معلوم ہو کہ اس نماز میں رعایت کی ہے یا نہیں، تو بھی جائز ہے مگر مکروہ ہے۔ اور اگر معلوم ہے کہ اس نماز میں رعایت نہیں کی ہے تو باطل محض ہے۔

مجدد اعظم اعلی حضرت علیہ الرحمہ سے سوال ہوا کہ سفر میں امام کے عقائد کی تصدیق کی ضروت ہے یا نہیں تو آپ نے جوابا ارشاد فرمایاعلم۔

ضرورت ہے اگر محلِ شُبہ ہو مثلاً کسی سے سنا کہ یہ امام وہابی ہے وُہ کہنے والا اگر چہ عادل نہ ہو صرف مستور ہو تحقیق ضرور ہے۔

قال صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم کیف وقد قیل۔

ترجمہ: حضور صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا :کیسے نہیں ہوسکتا ،حالانکہ یہ کہا گیاہے۔

(صحیح البخاری، باب الرحلۃ فی المسألۃ النازلۃ، جلد1، صفحہ19، مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی)

یا وہ بستی وہابیہ کی ہو تو تحقیق کرو اور اگر کوئی وجہِ شُبہ نہیں تونماز پڑھے پھر اگر بعد کوئی ثابت ہو کہ مثلاً وہابی تھا اعادہ فرض ہے۔وﷲ تعالٰی اعلم۔

(فتاوی رضویہ، جلد6، صفحہ617، رضا فاونڈیشن، لاہور)

بہار شریعت میں ہے : وہ بد مذہب جس کی بد مذہبی حد کفر کو پہنچ گئی ہو۔۔۔ان کے پیچھے نماز نہیں  ہوسکتی، (اور)جس بد مذہب کی بد مذہبی حد کفر کو نہ پہنچی ہو، اس کے پیچھے نماز، مکروہ تحریمی ہے۔

(بہار شریعت،جلد3، صفحہ562، مطبوعہ مکتبۃ المدینۃ)

بحر الرائق میں ہے:

“و اما الصلاۃ خلف الشافعیۃ فحاصل ما فی المجتبیٰ انہ اذا کان راعیاً للشرائط و الارکان عندنا فالاقتداء بہ صحیح علی الاصح و یکرہ و الّا فلا یصح اصلاً، ولا خصوصیۃ للشافعیۃ بل الصلاۃ خلف کل مخالف المذھب کذٰلک۔”اھ

ترجمہ: اور رہا شافعی کے پیچھے نماز، تو اس کا حاصل جو مجتبی میں ہے یہ ہے کہ اگر وہ ہمارے مذہب کے ارکان اور شرائط کی رعایت کرتا ہے تو اس کی اقتدا صحیح ہے اصح قول کے مطابق،اور مکروہ ہے ورنہ بالکل صحیح نہیں ہے، اور اس میں شافعی کی خصوصیت نہیں بلکہ ہر مخالف مذہب کا یہی حکم ہے۔

(بحرالرائق شرح کنز الدقائق، کتاب الصلاۃ، باب الامامۃ، جلد1، صفحہ613، دارالکتب العلمیۃ، بیروت)

فتاوی ھندیہ میں ہے: “و الاقتداء بشافعي المذھب انما یصح اذا کان الامام یتحامی مواضع الخلاف بان یتوضا من الخارج النجس من غیر السبیلین کالفصد و ان لایتوضا فی الماء الراکد القلیل و لا بالماء المستعمل۔” اھ

ترجمہ: شافعی مذہب امام کی اقتدا صحیح ہے جب وہ اختلاف کی جگہوں سے بچتا ہو بایں طور کہ غیر سبیلین سے نکلنے والی نجاست سے وضو کرے، جیسے فصد لگوانا، اور یہ تھوڑا ٹھہرا ہوا پانی جس میں نجاست گری ہو اور ماء مستعمل سے وضو نہ کرتا ہو۔

(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الصلاۃ، باب الامامۃ، الفصل الثالث جلد1، صفحہ86، بیروت)

فقیہ ملت مفتی جلال الدین احمد امجدی علیہ الرحمہ “فتاوی فیض الرسول” میں فرماتے ہیں: “اگر شافعی امام نے ایسا کام کیا جو ہمارے مذہب کے مطابق وضو توڑنے والا ہے یا نماز کو فاسد کرنے والا ہے جیسے کہ منہ بھر قی ہونے یا غیر سبیلین سے خون وغیرہ نکل کر بہنے کے بعد وضو نہ کیا، یا ماء مستعمل سے وضو کیا، یا وضو میں چوتھائی سر سے کم مسح کیا، صاحب ترتیب ہو کر یاد ہوتے ہوئے اور وقت میں وسعت کے باوجود قضا نماز پڑھے بغیر وقتی نماز شروع کر دی، یا کوئی فرض ایک بار پڑھ کر پھر اسی نماز کی امامت کر رہا ہو تو شافعی امام کی اقتدا میں خنفیوں کی نماز درست نہیں۔ جیساکہ غنیہ ص:480 میں ہے:”اما الاقتداء بالمخالف فی الفروع کالشافعی فیجوز ما لم یعلم منہ ما یفسد الصلاۃ علی اعتقاد المقتدی، علیہ الاجماع۔” اور اگر شافعی امام مسائل حنفیہ کی رعایت کرتا ہے تو اس کے پیچھے حنفیوں کی نماز درست ہے بشرطیکہ بدمذہبی وغیرہ اور وجہ مانع امامت نہ ہو۔ رد المحتار جلد اول ص:447 میں کبریٰ سے ہے:”ان علم الاحتیاط منہ فی مذھبنا فلا کراھۃ فی الاقتداء بہ” مگر حنفیوں کو رفع یدین میں اس کی اتباع کرنا مکروہ ہے۔ اور شافعی امام جب کہ وتر دو سلام سے پڑھے حنفیوں کو اس کی اقتدا صحیح نہیں۔ جیسا کہ در مختار مع شامی جلد اول ص:448 میں ہے:” صح الاقتداء فیہ بشافعی لم یفصلہ بسلام لا ان فصلہ علی الاصح”اھ تلخیصا۔

(فتاوی فیض الرسول، جلد1 صفحہ260۔261، شبیر برادرز، لاہور)

بہار شریعت میں ہے : شافعی یا دوسرے مقلد کی اقتدا اس وقت کر سکتے ہیں ، جب وہ مسائل طہارت و نماز میں  ہمارے فرائض مذہب کی رعایت کرتا ہو یا معلوم ہو کہ اس نماز میں  رعایت کی ہے یعنی اس کی طہارت ایسی نہ ہو کہ حنفیہ کے طور پر غیر طاہر کہا جائے، نہ نماز اس قسم کی ہو کہ ہم اُسے فاسد کہیں  پھر بھی حنفی کو حنفی کی اقتدا افضل ہے اور اگر معلوم نہ ہو کہ ہمارے مذہب کی رعایت کرتا ہے، نہ یہ کہ اس نماز میں  رعایت کی ہے تو جائز ہے، مگر مکروہ اور اگر معلوم ہو کہ اس نماز میں  رعایت نہیں  کی ہے، تو باطل محض ہے۔

(بہار شریعت،جلد3، صفحہ566، مطبوعہ مکتبۃ المدینۃ

واللّٰه تعالی اعلم بالصواب۔

کتبه: ندیم عطاری مدنی حنفی۔

نظر ثانی: ابو احمد مفتی انس رضا قادری۔

مؤرخہ 7رجب المرجب1443ھ بمطابق 9فروری 2022ء، بروز  بدھ

اپنا تبصرہ بھیجیں