عورت کا بغیر محرم کے سفر کرنا

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کہ یہ دیکھا گیا ہے کہ یورپ سے شوہر اپنی بیوی کے لیے ویزہ وغیرہ apply کرتا ہے۔بیوی اکیلے ہی سفر کر کے یورپ آتی ہے،کیا ایسا کرنا  منع ہے؟ یاد رہے کہ لاکھوں روپے کا اضافی خرچ ہو جاتا ہے اور شوہر کو ملازمت سے بھی چھٹی مل جائے، ایسا ہمیشہ نہیں ہوتا۔ رہنما ئی فرمائیں؟

         بسم الله الرحمن الرحيم

        الجواب بعون الملك الوهاب

پوچھی گئی صورت میں عورت کے لئے اکیلے یورپ کا سفر کرنا جائز نہیں کیونکہ شریعت مطہر ہ میں عورت کو شوہر یا محرم کے بغیر شرعی سفر ( تین دن کی راہ یعنی 92 کلومیٹر یا اس سے زائد سفر ) کیلئے جانا حرام ہے، خواہ وہ سفر حج و عمرہ کی غرض سے ہو یا کسی اور مقصد کے لیے ہو۔

حدیث مبارکہ میں ہے : ”عن ابی سعید الخدری قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم لا یحل لامرأۃ تؤمن باللہ و الیوم الاخر ان تسافر سفراً یکون ثلاثۃ ایام فصاعداً الا ومعھا ابوھا او ابنھا او زوجھا او اخوھا او ذومحرم منھا“ ترجمہ:سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: جو عورت اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتی ہے،اس کے لیے تین دن یا اس سے زیادہ کا سفر کرنا حلال نہیں ہے،مگرجبکہ اس کے ساتھ اس کا باپ یا بیٹا یا شوہر یا بھائی یا اس کا کوئی محرم ہو۔ (صحیح مسلم،باب سفر المرأۃ مع محرم الی حج وغيره،جلد1،صفحہ 434،مطبوعہ کراچی)

صحیح بخاری شریف میں ہے: ’’قال النبي صلى اللہ عليه وسلم:لا تسافر المرأة إلا مع ذي محرم،ولا يدخل عليها رجل إلا ومعها محرم، فقال رجل:يارسول اللہ إني أريد أن أخرج في جيش كذا وكذا وامرأتي تريد الحج، فقال: اخرج معها‘‘ ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:عورت بغیرمحرم کے سفرنہ کرے اورمحرم کی غیر موجودگی میں کوئی اس کے پاس نہ آئے،اس پرایک شخص نے عرض کی:یارسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم میرا فلاں فلاں لشکر میں جانے کا ارادہ ہے، اور میری عورت حج کرناچاہتی ہے،پس آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم اپنی عورت کے ساتھ جاؤ۔  (صحیح البخاری،باب حج النساء، ج03، ص19، دارطوق النجاۃ)

صحیح مسلم شریف میں ہے: ’’ولا تسافر المرأة إلا مع ذي محرم، فقام رجل، فقال يا رسول اللہ، إن امرأتي خرجت حاجة، وإني اكتتبت في غزوة كذا وكذا، قال انطلق فحج مع امرأتك‘‘  ترجمہ: اورعورت بغیرمحرم کے  سفر نہ کرے،پس ایک شخص نے کھڑے ہو کر عرض کی یارسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم میری عورت حج کے لیے نکلی اور میر انام فلاں فلاں غزوے میں لکھا گیا ہے، آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا: جاکر اپنی عورت کے ساتھ حج کر۔  (صحیح مسلم،باب سفرالمراۃ مع محرم الی حج وغیرہ،ج02 ،ص978،داراحیاء التراث العربی،بیروت)

سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فتاویٰ رضویہ میں فرماتے ہیں: ”عورت اگرچہ عفیفہ یا ضعیفہ ہو ، اسے بے شوہر یا محرم سفر کو جانا ، حرام ہے، اگر چلی جائے گی گنہگار ہوگی ہر قدم پر گناہ لکھا جائے گا ۔ “ ( فتاویٰ رضویہ،جلد 10، صفحہ 706-707، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور )

    صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:”عورت کو مکہ تک جانے میں تین دن یا زیادہ کا راستہ ہو تو اس کے ہمراہ شوہر یا محرم ہونا شرط ہے،خواہ وہ عورت جوان ہو یا بڑھیا“ (بھارشریعت،جلد1، صفحہ 1044،مکتبۃ المدینہ،کراچی)

فتاوی یورپ میں مفتی عبدالواحد علیہ الرحمتہ سے اس طرح کا سوال ہوا کہ حج یا عمرہ یا اپنے کسی عزیز رشتہ دار کے یہاں جانے کے لئیے بذریعہ ہوائی جہاز عورت کو دو چار گھنٹوں کا سفر جائز ہے یا نہیں جبکہ ایک محرم ایئرپورٹ کے اندر تک جبکہ دوسرا محرم جہاز سے اترتے ہوئے مل جائے اور حفاظت کا پورا انتظام ہو راستہ امن والا ہو ،اور سفر بھی دینی مفاد کے لیے ہو تو کیا مذہب حنفی میں کوئی گنجائش ہے؟؟

مفتی صاحب نے جوابا ناجائز و حرام کی صورت میں حکم شرعی بیان کیا اور پھر عورتوں کے ہوائی سفر کے تعلق سے بعض مفاسد کی نشاندہی کرتے ہوئے فرمایا:

1- شوہر یا محرم بیوی یا محرمہ کو رخصت کرنے کے لئے ائیر پورٹ تک گیا سیکیورٹی نے گیٹ پر ٹکٹ دیکھا مسافر کو اندر جانے کی اجازت دی شوہر یا محرم وآپس آ گئے اب اندر کے تمام مرحلوں سے اسے بغیر محرم کے گزرنا پڑے گا اور اجنبیوں کے ساتھ اسے بات چیت کرنا ناگزیر ہو گا۔

2-اگر فرض کر لیں شوہر یا محرم اس کے ساتھ ائیر پورٹ کے اندر چلا گیا جہاں سامان کی جانچ کے بعد اسے بک کرا دیا، سیٹ نمبر کنفرم ہو گیا اور گیٹ پاس بھی مل گیا تو کیا اب ایمی گریشن والے اس شوہر یا محرم کو بغیر ٹکٹ اور گیٹ پاس و پاسپورٹ ویٹنگ روم کی طرف جانے کی اجازت دے دیں گے؟ اب تو وہ اجنبیوں کے درمیان تنہا رہ گئی۔

3-فرض کریں امیگریشن والوں نے بھی اسے آگے جانے کی اجازت دے دی اور وہ ویٹنگ روم میں اپنی بیوی یا محرمہ کی حفاظت کرتا رہا مگر کیا اب ویٹنگ روم سے جہاز میں بھی اسے جانے کی اجازت ہو گی؟ تو اب وہ عورت کس کی نگرانی میں جہاز کے اندر داخل ہو کر اپنی سیٹ تک پہنچی؟.

4-یہ بھی فرض کیجئے کہ اسے جہاز میں شوہر نے پہنچا دیا، وہ اطمینان سے سیٹ پر بیٹھ گئی اور شوہر وآپس آ گیا اب کیا ضروری ہے کہ اس کے اغل بغل سیٹیں خالی جائیں یا خواہی نہ خواہی ان سیٹوں پر عورتیں ہی آئیں، لہذا مظنون ہے کہ وہ اجنبی مردوں کے پہلو بہ پہلو سفر کرے.

5-یہ بھی فرض کریں کہ اس کے اغل بغل شریف عورتوں کو ہی بیٹھنے کی اجازت ملی تو بھی یہ کیا ضروری ہے کہ جو جہاز روانہ ہوا وہ اپنی منزل پر پہنچ ہی جائے وہ کسی ٹیکنیکل خرابی کی وجہ سے لوٹ بھی سکتا ہے اور بعض غیر مانوس مقامات پر اتر بھی سکتا ہے اسوقت کی پریشانیوں اور عصمت و عزت کی حفاظت کا اندازہ کرنا مشکل ہے.

6-چلیے مان لیجیے کی حفظ و امان کے ساتھ جہاز مقررہ ہوائی اڈے تک پہنچ گیا…..اب جو محرم اسے لینے کے لیے آنے والا تھا وہ کسی ناگہانی حادثے کے سبب سے ائیر پورٹ نہیں پہنچ سکا، اس وقت اس کی کسمپرسی کا کیا حال ہو گا؟؟

اگر غور کیجئے تو اس طرح کی درجنوں حکمتیں سامنے آجائیں گی.

مفتی صاحب مزید فرماتے ہیں سائل نے رخصت کی راہ نکالنے کی فہمائش کی ہے، سائل کے اندر یہ جرات اس لیے پیدا ہوئی کہ علماء کہلانے والے حضرات نے شریعت میں اسقدر پیوند کاریاں کی ہیں کہ عوام نے پیوند کاریوں کے مجموعے کا نام شریعت سمجھ لیا ہے، ورنہ پڑھی لکھی عوام بھی جانتی ہے کہ منصوص مسائل تغییر و تبدیل کے اثرات قبول کرنے سے پاک ہیں وہ زمان و مکان کے بدلنے سے نہیں بدلتے بلکہ زمان و مکان کے احوال کو بدل دیتے ہیں.  (فتاوی یورپ ،ص 322تا324، شبیر برادرز لاہور)

باقی یہ کہ شوہر کا بیوی کے ساتھ سفر کرنا واقعی خرچے کا باعث ہے اور نوکری سے چھٹی ملنے کے حوالے سے بھی آزمائش ہوسکتی ہے لیکن شرعی حکم یہی ہے،اس میں کوئی عالم ازخود رعایت نہیں دے سکتا کہ یہ مسئلہ منصوص ہے، اس پر احادیث مروی ہیں۔

(والله تعالى اعلم بالصواب)

کتبہ : ابو الحسن حافظ محمد حق نواز مدنی

ابو احمد مفتی انس رضا قادری دامت برکاتہم العالیہ

( مورخہ17فروری 2022 بمطابق 15 رجب المرجب1443ھ بروز جمعرات )

اپنا تبصرہ بھیجیں