دورانِ نماز موبائل بج جائے تو اس کو بند کرنا

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین مسئلہ ذیل میں کہ دورانِ نماز موبائل بج جائے تو اس کو بند کرنے کے متعلق شریعت کیا کہتی ہے؟

جواب:

اگر نماز پڑھتے ہوئے موبائل کی گھنٹی ( Ring tone ) بج جائے تو اسےجیب کے اوپر سے عملِ قلیل سے بند کرنے کی اجازت ہے ( یعنی اس طرح بند کرے کہ دور سے دیکھنے والے کو لگے کہ نماز پڑھ رہا ہے ) جبکہ ایک رکن ( مثلاً قیام، یا رکوع ) میں دو مرتبہ سے زیادہ بند نہ کرے۔ اور اگر ایک رکن میں دو مرتبہ سے زیادہ بند کی یا عملِ کثیر کے ساتھ بند کی تو نماز ٹوٹ جائے گی ( یعنی اس طرح بند کی کہ دور سے دیکھنے والے کو لگے کہ نماز نہیں پڑھ رہا )۔ نیز اگر موبائل کا بہت شور ہو کہ بغیر عملِ کثیر کے وہ بند نہ ہوسکتا ہو اور لوگوں کی نماز میں خلل آرہا ہو تو اب ضرورت کی وجہ سے اس صورت میں نماز توڑنے کی بھی اجازت ہو گی۔

ملک العلماء علامہ علاؤ الدین ابوبکر کاسانی حنفی قدس سرہٗ لکھتے ہیں: ” كل عمل لو نظر الناظر إليه من بعيد لا يشك أنه في غير الصلاة فهو كثير، وكل عمل لو نظر إليه ناظر ربما يشبه عليه أنه في الصلاة فهو قليل“۔

ترجمہ: ایسا کام جس کے کرنے والے کو دیکھ کر یہ یقین ہو کہ وہ نماز میں نہیں، وہ عمل کثیر ہے۔ اور جس کام کے کرنے والے کو دیکھ کر یہ شک ہو کہ وہ نماز میں نہیں ہے تو یہ عملِ قلیل ہے۔

( بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع، جلد 01، صفحہ 241، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ ).

ردالمحتار علی الدرالمختار المعروف فتاویٰ شامی میں ضرورت کے وقت نماز توڑنے کے حوالے سے ہے: ” أن القطع يكون حراما ومباحا ومستحبا و واجبا، فالحرام لغير عذر والمباح إذا خاف فوت مال، والمستحب القطع للإكمال، والواجب لإحياء نفس “.

ترجمہ: نماز توڑنا کبھی حرام ہوتا ہے، کبھی مباح، کبھی مستحب اور کبھی واجب ہوتا ہے، اگر بغیر عذر ہو تو حرام ہے اور مال کے تلف کا اندیشہ ہو تو مباح اور کامل کرنے کے لیے ہو تو مستحب اور جان بچانے کے لیے ہو تو واجب۔

( رد المحتار علی الدر المختار، جلد 02، صفحہ 52، مطبوعہ دار الفکر بیروت )۔

موبائل فون کے ضروری مسائل میں مولانا طفیل احمد مصباحی صاحب فرماتے ہے: ” موبائل کی گھنٹی نماز کے خشوع وخضوع کو بری طرح متاثر کرتی ہے۔ لہذا اگر نماز کی حالت میں موبائل کی گھنٹی بجنے لگے اور عمل کثیر کیے بغیر گھٹی بند کرنا ممکن ہو تو جیب کے اوپر ( جیب سے باہر نکال کر نہیں ) سے بٹن دبا کر موبائل کی گھنٹی یا پھر سرے سے موبائل بند کر دینا جائز ہے۔ بشرطیکہ عملِ کثیر کی نوبت نہ آئے۔ اگر گھنٹی یا موبائل بند کرنے کے لیے عملِ کثیر کی نوبت آ جاۓ توایسی صورت میں موبائل کی گھنٹی یا موبائل بند نہیں کرنا چاہیے؛ کیوں عملِ کثیر کی وجہ سے نماز بھی فاسد ہوجائے گی اور نماز جیسی اہم عبادت اور مہتمم بالشان عمل کو باطل کرنا بھی لازم آجائے گا جو کہ جائز نہیں ہے۔

( موبائل فون کے ضروری مسائل، صفحہ 111-112، مطبوعہ فلاح ریسرچ فاؤنڈیشن )۔

کچھ آگے فرماتے ہیں: ” حالتِ نماز میں موبائل کی گھنٹی یا موبائل بند کرنے کی اجازت ہے۔ جیسا کہ اوپر بیان ہوا۔ مگر کس حد تک ؟ اور کتنی بار تو اس سوال کا جواب یہ ہے کہ دورانِ نماز ایک رکن میں ایک بار یا زیادہ سے زیادہ دو بار جیب کے اوپر سے موبائل کی گھنٹی بند کرنے کی اجازت ہے کہ اس عملِ قلیل سے نماز فاسد نہیں ہو گی اور اگر ایک رکن میں مثلاً صرف قیام میں یا صرف رکوع میں تین بار گھنٹی بند کی تو نماز فاسد ہو گئی۔ جس طرح ایک رکن میں تین بار کھجانے سے نماز فاسد ہو جاتی ہے۔ لہذا حکم دیا جائے گا کہ دوبارہ نماز پڑھی جائے۔ مختصر یہ کہ دورانِ نماز ایک رکن میں تین بار سے کم ( ایک بار یا دو بار ) جیب کے اوپر سے موبائل کی گھنٹی بند کرنے سے نماز نہیں ٹوٹے گی اور نماز ہوجائے گی اور ایک رکن میں تین بار گھنٹی بند کرنے سے نماز ٹوٹ جاۓ گی۔

( موبائل فون کے ضروری مسائل، صفحہ 113، مطبوعہ فلاح ریسرچ فاؤنڈیشن )۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

           کتبہ

 سگِ عطار محمد رئیس عطاری بن فلک شیر غفرلہ

ابو احمد مفتی انس رضا قادری دامت برکاتہم العالیہ

( مورخہ 01 ربیع الاول 1443ھ بمطابق 08 اکتوبر 2021ء بروز جمعہ )۔

اپنا تبصرہ بھیجیں