کیا گھریلو مجبوریوں کے سبب اسلامی بہن گھر سے باہر جا کر کما سکتی ہے؟

سوال:کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ گھریلو مجبوریوں کے سبب اسلامی بہن گھر سے باہر جا کر کما سکتی ہے ؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب  بعون المک الوہاب اللہم ھدایۃ الحق والصواب۔

اللہ تعالیٰ نے عورتوں  کو یہ حکم ارشاد فرمایا ہے کہ وہ اپنے گھروں  میں  ٹھہری رہا کریں  اور شرعی ضرورت و حاجت کے بغیر اپنے گھر سے باہر نہ نکلیں اسی میں انکی بھلائی ہے ،  یہاں تک  کہ جہاد جیسے عظیم فریضے  میں بھی  جانے سے منع کیا گیا ،اور ان کو  گھر میں رہنے کی بدولت جہاد  رتبہ  عطافرمایا گیا ۔

اورآج کل دفاتر وغیرہ میں مرد و عورت   اِکٹّھے کام کرتے ہیں اور یو ں ان دونوں کیلئے بے پردَگی،بے تکلُّفی اور بد نِگاہی سے بچنا قریب بہ نا ممکن ہے،   لہٰذا ایسی اسلامی بہن  کو چاۂئے  کہ   باہر جاکر گھراور دفتر وغیرہ میں نوکری کے بجائے کوئی گھر میں  کوئی کمانے کا ذریعہ  اختیار کرے، فی زمانہ تو جدید ٹیکنالاجی کا دور ہے پہلے کے مقابلے میں اب آسان ہے   یاپھر رقم وغیر ہ  پاس ہے تو مناسب کاروبا ر وغیرہ   کھلوائے   ،اور  اگر  ایسی صورت  نہیں بنتی تو پانچ شرطوں کے ساتھ ہے  گھر سے باہر نوکری کے لیے  جاسکتی ہے ، اگر ان میں سے کوئی ایک شرط بھی نہیں پائی گئی تو عورت کے لئے مُلازمت کرنا حرام ہے۔ وہ پانچ شرطیں یہ ہیں:(1)اَعضائے سَتر یعنی جن اَعضاء کا پردہ فرض ہے مثلاً بال، گلے، کلائی، پنڈلی وغیرہا کا کوئی حصّہ ظاہر نہ ہو۔ (2)کپڑے باریک نہ ہوں کہ جن سے سر کے بال یا کلائی وغیرہ سَتر کا کوئی حصّہ چمکے۔ (3)کپڑے تَنگ و چُست نہ ہوں کہ جن سے بدن کی ہیئت (مثلاً سینے کا ابھار یا پنڈلی وغیرہ کی گولائی) ظاہر ہو۔ بعض عورتیں بہت چُست پاجامہ استعمال کرتی ہیں کہ پِنڈلی کی ہیئت معلوم ہورہی ہوتی ہے، ایسی حالت میں نامحرموں کے سامنے آنا منع ہے۔ (4)کبھی نامحرم کے ساتھ خَفیف (یعنی معمولی سی) دیر کے لئے بھی تنہائی نہ ہوتی ہو۔ (5)اس کے وہاں (یعنی کام کی جگہ) رہنے یا باہر آنے جانے میں فِتنہ کا اندیشہ نہ ہو۔

عورتوں کے گھروں میں رہنے کے حوالے سے حکم خداوندی ہے:  وَ قَرْنَ فِیْ بُیُوْتِكُنَّ وَ لَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِیَّةِ الْاُوْلٰى،ترجمہ کنزالایمان: اور اپنے گھروں  میں  ٹھہری رہو اور بے پردہ نہ رہو جیسے اگلی جاہلیت کی بے پردگی        ۔

( الاحزاب، الآیۃ: ۳۳)

حالت جہاد میں جو عورتیں گھر پر رکیں رہیں انکے  لیے جہاد کا اجر ہے  چنانچہ حدیث پاک میں ہے :عن أنس، قال: جئن النساء إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلن: يارسول الله ذهب الرجال بالفضل والجهاد في سبيل الله فما لنا عمل ندرك به عمل المجاهدين في سبيل الله فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من قعد -أو كلمة نحوها- منكن في بيتها فإنها تدرك عمل المجاهد في سبيل الله.ترجمہ :حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  کہ عورتیں  رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں  حاضر ہوئیں  اورانہوں  نے عرض کی: یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، مرد اللہ تعالیٰ کی راہ میں  جہاد میں  شریک ہو کر فضیلت لے گئے اورہماراتوکوئی ایساعمل نہیں  جسے بجالاکرہم مجاہدین کادرجہ پاسکیں  ؟حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان سے ارشاد فرمایا: ’’تم میں  سے جواپنے گھرمیں  ٹھہری رہے وہ ان مجاہدین کادرجہ پائے گی جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں  جہادکرتے ہیں ۔

( مسند البزار ۱۳/۳۳۹، الحدیث:  ۶۹۶۲ مكتبة العلوم والحكم – المدينة المنورة)

عورتوں  کے ملازمت کرنے کے حوالے سے  امامِ اہلِ سنّت، مُجَدِّدِ دين وملّت مولاناشاہ امام احمد رضا خان عليہ  الرحمہ فرماتے ہيں:” يہاں پانچ شرطيں ہيں(1) کپڑے باريک نہ ہوں جن سے سر کے بال يا کلائی وغيرہ سِتْر کا کوئی حصّہ چمکے(2) کپڑے تنگ وچُست نہ ہوں جو بدن کی ہَيْئت(یعنی سینے کااُبھاریا پنڈلی وغیرہ کی گولائی وغیرہ) ظاہِرکريں (3)بالوں يا گلے يا پيٹ ياکلائی يا پنڈلی کا کوئی حصّہ ظاہِر نہ ہوتا ہو(4) کبھی نامَحْرَم کے ساتھ خَفیف (یعنی معمولی سی ) دير کے لئے بھی تنہائی نہ ہوتی ہو(5)اُس کے وہاں رہنے يا باہَر آنے جانے ميں کوئی مَظِنَّۂ فِتنہ(فتنے کا گمان) نہ ہو۔يہ پانچوں شرطيں اگر جَمْع ہيں توحَرَج نہيں اور ان ميں ايک بھی کم ہے توحرام”۔

(فتاوی رضويہ ج۲۲ ص ۲۴۸ مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن )

کتبہ احسان احمد عطاری  بن حضور بخش سکندری

2021/10/13

نظرثانی:مفتی ابو أحمد انس رضا عطاری مدنی دامت برکاتہم العالیہ

اپنا تبصرہ بھیجیں