طلاق کے بعد عدت کا خرچہ کس پر ہوتا ہے؟

کیا فرماتے ہیں علمائے دین متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ طلاق کے بعد عدت کا خرچہ کس پر ہوتا ہے؟

الجواب بعون الملک الوهاب اللهم هدایة الحق والصواب

طلاق کے بعد اگر بیوی شوہر کے گھر میں عدت گزارے، تو دوران عدت خرچہ شوہر کے ذمہ اس کی استطاعت کے بقدر لازم ہے۔

اور اگر بیوی شوہر کے گھر عدت نہیں گزارتی، بلکہ اپنے میکے چلی جاتی ہے اور شوہر کے بلانے کے باوجود بغیر کسی شرعی عذر کے نہیں آتی، تو ایسی صورت میں شوہر کے ذمہ اس کا خرچہ لازم نہیں ہوگا۔

طلاق یافتہ عورتوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنتُم مِّن وُجْدِكُمْ وَلَا تُضَارُّوهُنَّ لِتُضَيِّقُوا عَلَيْهِنَّ وَإِن كُنَّ أُولَاتِ حَمْلٍ فَأَنفِقُوا عَلَيْهِنَّ حَتَّى يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ فَإِنْ أَرْضَعْنَ لَكُمْ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ وَأْتَمِرُوا بَيْنَكُم بِمَعْرُوفٍ وَإِن تَعَاسَرْتُمْ فَسَتُرْضِعُ لَهُ أُخْرَىO

تم اُن (مطلّقہ) عورتوں کو وہیں رکھو جہاں تم اپنی وسعت کے مطابق رہتے ہو اور انہیں تکلیف مت پہنچاؤ کہ اُن پر (رہنے کا ٹھکانا) تنگ کر دو، اور اگر وہ حاملہ ہوں تو اُن پر خرچ کرتے رہو یہاں تک کہ وہ اپنا بچہ جَن لیں، پھر اگر وہ تمہاری خاطر (بچے کو) دودھ پلائیں تو انہیں اُن کا معاوضہ ادا کرتے رہو، اور آپس میں (ایک دوسرے سے) نیک بات کا مشورہ (حسبِ دستور) کر لیا کرو، اور اگر تم باہم دشواری محسوس کرو تو اسے (اب کوئی) دوسری عورت دودھ پلائے گی۔

الطَّلاَق، 65: 6

اس آیتِ مبارکہ میں مطلقہ عورتوں کو بھی وہیں رہائش رکھنے کا حکم دیا گیا ہے جہاں ان کے طلاق دینے والے شوہر رہتے ہیں، انہیں تکلیف دینے سے منع کیا گیا ہے اور بچے کی پیدائش کی صورت میں اس کے اخراجات اٹھانے کا حکم ہے۔

فقہائے کرام فرماتے ہیں:فتاوی عالمگیری میں ہے۔۔

الْمُعْتَدَّةُ عَنْ الطَّلَاقِ تَسْتَحِقُّ النَّفَقَةَ وَالسُّكْنَى كَانَ الطَّلَاقُ رَجْعِيًّا أَوْ بَائِنًا ، أَوْ ثَلَاثًا حَامِلًا كَانَتْ الْمَرْأَةُ ، أَوْ لَمْ تَكُنْ.

جو عورت طلاق کی عدت میں ہو وہ نفقہ و سکنیٰ کی مستحق ہے خواہ طلاق رجعی ہو یا بائنہ یا تین طلاقیں ہوں خواہ عورت حاملہ یا نہ ہو۔

الشيخ نظام وجماعة من علماء الهند، الفتاوى الهندية، 1: 557، بيروت: دار الفكر

اور فتاوی خانیہ میں ہے“أجمع العلماء علیٰ أن المطلقۃ طلاقاً رجعیاً تستحق النفقۃ والسکنی أیضاً مادامت العدۃ قائمۃ سواء کانت حاملاً أو حائلاً۔ وأما المبتوتۃ فلہا النفقۃ والسکنیٰ أیضاً وہذا مذہبنا”.

علماء کا اجماع ہے کہ طلاق رجعی والی اور طلاق مبتوتة ( وہ طلاق جس کے بعد رجوع کا حق نہ رہے) والی وہ حاملہ ہو یا نہ لو اسے نان و نفقہ اور رہائش ملے گی ۔

(الفتاویٰ التاتار خانیۃ: ٥/ ۳۹۹)

فتاوی عالمگیری میں ہے“والمعتدة إذا كانت لا تلزم بيت العدة بل تسكن زمانا وتبرز زمانا لا تستحق النفقة كذا في الظهيرية”

وفیہ أیضا:“وإن نشزت فلا نفقة لها حتى تعود إلى منزله والناشزة هي الخارجة عن منزل زوجها المانعة نفسها منه بخلاف ما لو امتنعت عن التمكن في بيت الزوج لأن الاحتباس قائم”.

دونوں کا خلاصہ یہ ہے کہ طلاق یافتہ عدت کے دوران کبھی گھر رہتی ہے کبھی نہیں رہتی اور نافرمانی کرتی ہے کہ میں گھر میں نہیں رہوں گی تو جب تک وہ لوٹ نہ آئے گو اسے نفقہ نہ ملے گا

۵۴۵الفتاوى الھندیہ ١)

واللہ اعلم و رسولہ اعلم عزوجل صلی اللہ علیہ والہ وسلم

مجیب ۔؛ مولانا فرمان رضا مدنی

نظر ثانی۔: ابو احمد مولانا مفتی انس قادری مدنی