سوال :حضور علیہ الصلوۃ والسلام کو علم غیب تھا اس کا ثبوت قرآن و حدیث سے پیش کریں ۔
الجواب بعون الملك الوھاب
اللہ پاک نے اپنے پیارے حبیب ,حبیب لبیب صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ و سلم کو یقیناً علم غیب عطا فرمایا ہے بلکہ نبی کا معنی ہے غیب کی خبریں دینے والا ہوتا ہے اور انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام غیب کی خبریں دینے کے لئے ہی تو آتے ہیں جنت ,دوزخ ,حشر, نشر, ثواب, عذاب ,فرشتے وغیرہ یہ سارے غیب نہیں تو اور کیا ہیں مگر ان کا یہ غیب اللہ پاک کی عطا سے ہے لہذا یہ علم غیب عطائی ہوا اور پاک کا علم ذاتی ہے اور وہی اس کی صفت ہے اس طرح کا علم غیب (عطائی) انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کیلئے قرآن و حدیث کے بیسیوں دلائل سے ثابت ہے۔
قرآن پاک میں ہے:وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَیْبِ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ یَجْتَبِیْ مِنْ رُّسُلِهٖ مَنْ یَّشَآءُ**ترجمہ: اور (اے عام لوگو!)اللہ تمہیں غیب پر مطلع نہیں کرتا البتہ اللہ اپنے رسولوں کو مُنتخب فرمالیتا ہے جنہیں پسند فرماتا ہے۔
( پ4 سورۃ آل عمران آیت 179)
اس آیت مبارکہ کے تحت تفسیر خازن میں ہے: یعني: ولکن اللّٰہ یصطفي ویختار من رسلہ من یشاء فیطّلعہ علی ما یشاء من غیبہ
یعنی:لیکن اللہ پاک اپنے رسولوں میں سے جسے چاہتا ہے چن لیتا اور اختیار فرما لیتا ہے اور پس اپنے غیب میں سے جس پر چاہتا ہے مطلع فرما دیتا ہے
( ج1ص 429تحت الآیۃ وما کان اللہ لیطلعکم…..مطبوعہ اکوڑہ خشک نوشہرہ )
دوسری جگہ ہے:عٰلِمُ الْغَیْبِ فَلَا یُظْهِرُ عَلٰى غَیْبِهٖۤ اَحَدًاۙ(26)اِلَّا مَنِ ارْتَضٰى مِنْ رَّسُوْلٍ*
(پ29 سورۃ جن آیت 26,27)
اس کے تحت تفسیر طبری ج 12 ص 275 پر ہے :عن قتادۃ، قولہ: { عٰلِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلٰى غَيْبِهٖۤ اَحَدًاۙ۰۰۲۶ اِلَّا مَنِ ارْتَضٰى مِنْ رَّسُوْلٍ }، فإنّہ یصطفیہم، ویطّلعہم علی ما یشاء من الغیب)
یعنی اللہ پاک رسولوں کو چن لیتا ہے اور انہیں غیب میں سے جس چیز پر چاہتا ہے مطلع فرما دیتا ہے*
(تفسیر طبری ج12,ص279 تحت الآیۃ عٰلم الغیب….مطبوعہ دارالکتب العلمیہ, بیروت)
مزید اللہ عزوجل فرماتا ہے: وَ عَلَّمْنٰهُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا*
اس آیت کے تحت تفسیر طبری ج5 ص 316 پر ہے
{وَ عَلَّمْنٰهُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا}أي: علم الغیب)
یعنی یہاں علم سے مراد “علم غیب” ہے
(تفسیر طبری ج5الجزالتاسع,ص316 مطبوعہ دارالکتب العلمیہ,بیروت)
ان کے علاوہ بھی بہت ساری آیات سے علم غیب کا ثبوت ہے
قرآنی آیات کی طرح احادیث سے بھی علم غیب عطا ہونے کا ثبوت ہے چنانچہ صحیح البخاری میں ہے عن طارق بن شہاب قال: سمعت عمر رضي اللّّٰہ عنہ یقول: ((قام فینا النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم مقاماً فأخبرنا عن بدء الخلق حتی دخل أہل الجنۃ منازلہم وأہل النار منازلہم، حفظ ذلک من حفظہ ونسیہ من نسیہ))*
*ابن شہاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے فرمایا کہ میں نے امیر المؤمنین حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا:
ایک مقام پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمارے درمیان کھڑے تھے تو آپ نے ابتداء خلق سے ہمیں خبریں دینا شروع فرمایا حتی کہ یہاں تک بیان فرمایا اہل جنت اپنے محلات میں داخل ہوگئے اور اہل دوزخ اپنے ٹھکانے میں پس جس نے یہ یاد کرلیا اس نے یاد کرلیا اور جو بھول گیا وہ بھول گیا*
(’’صحیح البخاري‘‘، کتاب بدء الخلق، الحدیث: 3192، ج2، ص375 دارلکتب العلمیہ بیروت)
اس حدیث پاک کی شرح میں عمدۃ القاری ج 10,ص 544پر ہے:(وفیہ دلالۃ علی أنّہ أخبر في المجلس الواحد بجمیع أحوال المخلوقات من ابتدائہا إلی انتہائہا، وفي إیراد ذلک کلّہ في مجلس واحد أمر عظیم من خوارق العادۃ، وکیف! وقد أعطي جوامع الکلم مع ذلک)
اس حدیث پاک میں اس بات پر دلالت ہے حضور نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ و سلم نے ایک ہی مجلس میں تمام مخلوقات کی ابتدا سے انتہا تک خبر دی ہے اور ایک ہی مجلس میں ان سب کا بیان کرنا ایک امر عظیم اور عادت کے خلاف ہے (معجزہ ہے)
اور کیسے نہ ہو تو!حالانکہ آپ کو جوامع الکلم عطا فرمایا گیا ہے
(عمدۃ القاری ج 10,ص 544 مطبوعہ دارالحدیث, ملتان)
صحیح مسلم میں ہے: عن حذیفۃ قال: ((قام فینا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مقاماً ما ترک شیئاً یکون في مقامہ ذلک إلی قیام الساعۃ إلاّ حدث بہ حفظہ من حفظہ ونسیہ من نسیہ))۔
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ و سلم ایک مقام پر ہمارے درمیان کھڑے تھے تو اسی مقام پر آپ نے قیامت قائم ہونے تک کسی چیز کو نہ چھوڑا مگر اسے بیان فرما دیا جس نے یاد کرلیا اس نے یاد کر لیا اور جو بھول گیا وہ بھول گیا
(’’صحیح مسلم‘‘، کتاب الفتن، باب إخبار النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم فیما یکون إلی قیام الساعۃ، الحدیث: 23۔(2891)، ص1545 مطبوعہ دارلمغنی عرب شریف)
الخصائص الکبری میں ہے:عن ابن عمر قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ((إنّ اللّٰہ عزوجل قد رفع لي الدنیا فأنا أنظر إلیہا وإلی ما ہو کائن فیہا إلی یوم القیامۃ کأنّما أنظر إلی کفّي ہذہ جلیان من أمر اللّٰہ عزوجل جلاّہ لنبیّہ کما جلاّہ للنبیّین من قبلہ))*
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے فرمایا :رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ و سلم نے ارشاد فرمایا اللہ پاک نے میرے لئے دنیا اٹھالی ہے پس اسکی طرف اور جو کچھ قیامت تک اس میں ہونے والا ہے اس کو ایسے دیکھتا ہوں جیسے میں اپنی اس ہتھیلی کو دیکھتا ہوں اس روشنی کے سبب جو ﷲ تعالٰی نے اپنے نبی کے لیے روشن فرمائی جیسے محمد سے پہلے انبیاء کے لیے روشن کی تھی
(و’’الخصائص الکبری‘‘، ج2، ص185 مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، و’’الدولۃ المکیّۃ بالمادّۃ الغیبیۃ‘‘، ص56 رضا فاؤنڈیشن لاہور)
اعلی حضرت عظیم البرکت عظیم المرتبت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ الرحمن ’’فتاوی رضویہ‘‘ میں اس حدیث ِمبارکہ کو نقل کرنے کے بعد ارشاد فرماتے ہیں :’’اس حدیث سے روشن ہے کہ جو کچھ سماوات وارض میں ہے اور جو قیامت تک ہوگا اس سب کا علم اگلے انبیاء ِکرام علیہم السلام کو بھی عطا ہوا تھا اور حضرت عزت عز جلا لہ نے اس تمام ما کان وما یکون کو اپنے ان محبوبوں کے پیش نظر فرمادیا، مثلاً: مشرق سے مغرب تک، سماک سے سمک تک، ارض سے فلک تک اس وقت جو کچھ ہورہا ہے سیدنا ابراہیم خلیل علیہ الصلاۃ والتسلیم ہزار ہا برس پہلے اس سب کو ایسا دیکھ رہے تھے گویا اس وقت ہر جگہ موجود ہیں ،ایمانی نگاہ میں یہ نہ قدرتِ الٰہی پر دشوار اور نہ عزت ووجاہت ِانبیاء کے مقابل بسیار۔
(’’فتاوی رضویۃ‘‘ ، ج29،ص495 رضا فاؤنڈیشن لاہور )
علامہ بوصیری علیہ الرحمۃ کےقصیدہ بردہ شریف کو تو بدمذہب بھی بڑے زور و شور سے پڑھتے سنائی دیتے ہیں تواعلی حضرت عظیم المرتبت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ الرضوان “فتاوی رضویہ”میں انہیں امام بوصیری علیہ الرحمۃ کا قول نقل کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:
اﷲ عزوجل کے بے شمار رحمتیں امام اجل محمد بوصیری شرف الحق والدین رحمۃ اﷲ علیہ پر قصیدہ بردہ شریف میں فرماتے ہیں۔
فانّ من جودك الدّنیا وضرّتھا
ومن علومك علم اللّوح والقلم
یعنی یارسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم دنیا و آخرت دونوں حضور کے خوانِ جودو کرم سے ایك ٹکڑا ہیں اور لوح و قلم کا تمام علم جن میں ماکان و مایکون مندرج ہے حضور کے علوم سے ایك حصہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم وعلٰی اٰلك وصحبك وبارك وسلم
(’’فتاوی رضویۃ‘‘ ، ج29،ص501رضا فاؤنڈیشن لاہور)
ان دلائل سے ثابت ہوا کہ حضور علیہ السلام کو علم غیب عطا کیا گیا تھا مطلقا حضور علیہ السلام یا دیگر انبیاء علیہم السلام کے علم غیب کا انکار کرنا کفر ہے۔(اعلی حضرت عظیم المرتبت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ الرضوان فتاویٰ رضویہ میں فرماتے ہیں:یوں ہی اس پر اجماع ہے کہ اﷲ عزوجل کے دیئے سے انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلا م کو کثیر و وافر غیبوں کا علم ہے یہ بھی ضروریاتِ دین سے ہے جو اس کا منکر ہوکافر ہے کہ سرے سے نبوت ہی کا منکر ہے)
(فتاویٰ رضویہ ج 29ص452 رضا فاؤنڈیشن)۔
اور کوئی غیب کیا تم سے نہاں ہو بھلا
جب نہ خدا ہی چھپا تم پہ کروڑوں درود
(“حدائق بخشش‘‘، ص191)
مزیددلائل کیلئے اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ کی کتب مثلاً: ’’الدولۃ المکیۃ بالمادۃ الغیبیۃ‘‘، ’’خالص الاعتقاد‘‘، ’’إنباء الحي‘‘، ’’إزاحۃ العیب بسیف الغیب‘‘، ’’إنباء المصطفی بحال سرّ وأخفی‘‘، ’’مالیٔ الجیب بعلوم الغیب‘‘، وغیرہا کا مطالعہ کریں ۔
کتبہ:عبدہ المذنب ابو معاویہ زاہد بشیر مدنی