نماز پڑھتے وقت اللہ تعالٰی کے خوف سے رونا

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ نماز پڑھتے وقت اللہ تعالٰی کے خوف سے رونا جائز ہے یا نہیں؟

بسم الله الرحمن الرحيم

الجواب بعون الملك الوهاب اللهم هداية الحق والصواب

نماز میں اللہ پاک کے خوف،جہنم کے ڈر سے ، جنت کی محبت میں اور قرآن پاک کے ذوق و شوق میں سے رونا جائز و مستحسن اور باعث سعادت ہے کہ یہ احادیث سے ثابت ہے اور اس حالت میں اگر زبان سے آہ ، اوہ کے الفاظ بھی نکل آۓ تو نماز فاسد نہیں ہوگی دنیاوی تکلیف کی وجہ سے رونا مکروہ ہے

ابو داؤد شریف میں ہے

وَعَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ الشِّخِّيرِ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ ، قَالَ : اَتَيْتُ رَسُوْلَ الله صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم وَهُوَ يُصَلِّي وَلِجَوْفِهِ اَزِيْزٌ كَاَزِيْزِ الْمِرْجَلِ مِنَ الْبُكَاءِ.

ترجمہ : حضرت سَیِّدُنَا عبداللہ بن شخیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ ’’میں حضور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں حاضر ہوا توآپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نماز پڑھ رہے تھے اور ( خوفِ خدا سے ) رونے کی وجہ سے آپ کے سینہ مبارکہ سے ہنڈیا جیسی آواز آ رہی تھی ۔

( ابو داود ، کتاب الصلاۃ ، باب البکاء فی الصلاۃ ، جلد 1 صفحہ 342 ، حدیث : 904 )

عَلَّامَہ بَدْرُ الدِّیْن عَیْنِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْغَنِی ” شرح ابو داؤد“میں فرماتے ہیں :

واستدل صاحب “المحيط” من أصحابنا بهذا الحديث، أن المصلي ينبغي أن يخشع، ويكون قلبه فيها على الخوف من عدله، والرجاء في فضله، ومن لازم الخوف الشديد في القلب: البكاء عادة، فإذا بكى في صلاته من ذلك الوجه من غير أن يعلو بصوته فلا بأس، أو بكى من اشتياقه إلى الجنة، أو خوفه من النار، ويكره أن يبكي لمصيبة لحقته،

 ’’صاحب محیط نے مذکورہ حدیث پاک سے یہ استدلال کیاکہ نمازی کو چاہیے کہ نماز میں خشوع اختیا ر کرے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کے عدل سے ڈرے جبکہ اُس کی رحمت سے اُمید میں رہے ، خوفِ شدید سے رونے سے مراد وہ رونا ہے جو عادۃًہو ، پس اگر کوئی خوفِ خدا یا جنت کی طلب و جہنم کے خوف کے ذکر کی وجہ سے نماز میں بغیر آواز بلند کیے روئے تو اس میں کوئی حرج نہیں ، جبکہ کسی مصیبت کی وجہ سے نماز میں رونا مکروہ ہے ۔ ‘‘

 (شرح ابو داودللعینی ، کتاب الصلاۃ ، باب البکاء فی الصلاۃ ، 4 / 126 ، تحت الحدیث : ۸۸۱ ۔مکتبۃ الرشد)

 عَلَّامَہ مُلَّا عَلِی قَارِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْبَارِی ” مرقاۃ “میں ” شرح منیہ“ کے حوالے سے فرماتے ہیں :

 وفي شرح المنية: إذا بكى فيها وحصل منه صوت مسموع فإن كان من ذكر الجنة أو النار أو نحوهما لم يقطعهما ; لأنه بمنزلة الدعاء بالرحمة والعفو، وإن كان من وجع أو مصيبة يقطعها ; لأنه بمنزلة الشكاية فكأنه قال: بي وجع، أو أصابتني مصيبة، وهو من كلام الناس فيفسد، وعن محمد: أنه إن كان شديد الوجع بحيث لا يملك نفسه لا تفسد.

 ’’جب کوئی نماز میں روئے اور وہ آواز ایسی ہو کہ جس کو سنا جا سکتا ہو اگر یہ آواز جنت و دوزخ کاذکر سن کر نکلی تو نماز کو باطل نہیں کرے گی کیونکہ ایسی صورت میں یہ آواز بمنزلہ دعا ، طلبِ رحمت اور معافی مانگنے کے ہے اور اگر وہ آواز کسی درد یا مصیبت کی وجہ سے ہو تو نماز کو باطل کر دے گی کیونکہ اب یہ رونا بمنزلہ شکایت کے ہے گو یا کہ وہ کہہ رہا ہے مجھے تکلیف ہے یا مجھے کوئی مصیبت پہنچی اور یہ لوگوں کا کلا م ہے جو کہ نماز کو فاسد کر دیتا ہے ۔ ‘‘

( مرقاۃ المفاتیح ، کتاب الصلاۃ ، الفصل الثانی ، جلد 2 صفحہ 291 ، تحت الحدیث : 1000 ۔ دارالفکر بیروت )

کنزالعمال میں ہے

عن عبد الله بن السائب قال: أخر عمر بن الخطاب العشاء الآخرة فصليت ودخل وكان في ظهري فقرأت {والذاريات} حتى أتيت على قوله: {وفي السماء رزقكم وما توعدون} فرفع صوته

ترجمہ۔حضرت سیدنا عبداللہ بن سائب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ایک بار امیر المؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کو کسی سبب سے نماز عشا میں تاخیر ہوگئی تو میں نے نماز عشا کی امامت کروائی، آپ بعد میں تشریف لے آئے اور نماز میں شامل ہو گئے۔ میں نے سورۃ الذاریات کی تلاوت کی اور جب میں اس آیت مبارکہ (آیت نمبر 22) پر پہنچا

وفي السماء رزقكم وماتوعدون

ترجمہ کنزالایمان: اور آسان میں تمہارا رزق ہے اور جو تمہیں وعدہ دیا جاتا ہے

تو سید نافاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ بلند آواز سے رونے لگے ۔

(کنز العمال جلد 12 صفحہ 574 مؤسسۃ الرسالہ)

درمختار مع ردالمحتار میں ہے:

“والبکاء بصوت يحصل به حرف لوجع او مصيبة۔۔۔۔۔۔۔۔ لالذكر جنة اونار فلو اعجبته قراة الامام فجعل يبكي ويقول بلي اونعم اواري لاتفسد سراجية لدلالته علي الخشوع”

 تکلیف یا درد کی وجہ سے آواز سے رویا اور حرف(آہ اوہ) پیدا ہوئے تو نماز فاسد ہو جائے گی اور اگر جنت ، جہنم کے تذکرے یا قرآن کی تلاوت کے وقت رویا اور زبان سے نعم ، بلی کے الفاظ نکلے تو نماز فاسد نہیں ہوگی

 (الدرمختار مع ردالمحتار جلد 2 صفحہ 456 دارالمعرفۃ بیروت )

فتاوی ھندیہ میں ہے: ولو أن في صلاته أو تأوه أو بكى فارتفع بكاؤه فحصل له حروف فإن كان من ذكر الجنة أو النار فصلاته تامة وإن كان من وجع أو مصيبة فسدت صلاته

اگر نماز میں بلند آواز سے رویا اور اس سے آہ ، اوہ کے الفاظ پیدا ہوئے اگر تو جنت یا جہنم کے تذکرہ کے وقت ایسا ہوا تو نماز درست ہے اور اگر کسی تکلیف یا دنیاوی مصیبت کی وجہ سے رویا اور الفاظ پیدا ہوئے تو نماز فاسد ہو جائے گی

(فتاوی ھندیہ جلد 1 صفحہ 101 دارالفکر بیروت)

بہار شریعت میں ہے:آہ، اوہ، اُف، تف یہ الفاظ درد یا مصیبت کی وجہ سے نکلے یا آواز سے رویا اور حرف پیدا ہوئے، ان سب صورتوں میں نماز جاتی رہی (اور)جنت و دوزخ کی یاد میں اگر یہ الفاظ کہے، تو نماز فاسد نہ ہوئی یا امام کا پڑھنا پسند آیا اس پر رونے لگا اور ارے، نعم، ہاں ، زبان سے نکلا کوئی حرج نہیں

(ماخوذ از بہارشریعت سوفٹویئر جلد 1 حصہ 3 صفحہ 612 مکتبۃ المدینہ)

والله اعلم ورسوله عزوجل و صلى الله عليه وسلم

كتبه: محمد نثار عطاری

5 ربیع الاول 1443ھ بمطابق 12 اکتوبر 2021ء

 نظر ثانی۔ابواحمد مفتی محمد انس رضا عطاری

اپنا تبصرہ بھیجیں