13 رجب المرجب اور ولادت مولی علی المرتضی رضی اللہ تعالی عنہ

13 رجب المرجب اور ولادت مولی علی المرتضی رضی اللہ تعالی عنہ

کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ولادت13 رجب کو خانہ کعبہ میں ہونا ثابت ہے یا نہیں ؟

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الوہاب اللہم ہدایۃالحق والصواب

13 رجب کو خانہ کعبہ کے اندر حضرت علی المرتضی رضی اللہ تعالی عنہ کا پیدا ہونا صحیح روایت سے ثابت نہیں ہے۔اہل عرب میں تاریخ ولادت کو نوٹ کرنا رائج نہ تھا یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے اکابر صحابہ کرام اور دیگر بزرگ ہستیوں کا یوم ِعرس تو معلوم ہے لیکن ولادت کا دن معلوم نہیں۔

چونکہ بعض کتب میں 13 رجب کو خانہ کعبہ میں پیدا ہونا لکھا ہے اس لیے اگر کوئی اس کا نظریہ رکھ لے تو شرعا ناجائز وگنا ہ نہیں لیکن دیکھا جارہا ہے کہ اس دن کو منانے میں رافضی اور نیم رافضی ٹولہ پیش پیش ہے اور اس دن منانے میں خرافات کے ساتھ مبالغہ آرائی بھی عام ہورہی ہے ۔13 رجب المرجب کو خانہ کعبہ میں جس واقعہ کو بنیاد بنایا جاتا ہے وہ واقعہ ہی اہل سنت کی کتب میں نہیں بلکہ شیعوں کی کتابوں میں موجود ہے ،پھر شیعہ لوگوں کا جو عقیدہ ہے کہ حضرت علی المرتضی رضی اللہ تعالی عنہ اور دیگر ائمہ اہل بیت پچھلے تمام نبیوں سے افضل ہیں،وہ اس واقعہ سے افضلیت یوں ثابت کرتے ہیں کہ حضرت مریم رضی اللہ تعالی عنہا کو ولادت عیسی علیہ السلام کے موقع پر مسجد سے نکال دیا گیا تھا لیکن ولادت علی المرتضی پر کعبہ میں جانے کا حکم ہوا۔ حالانکہ شرعی اعتبار سے ایک تو یہ بات ثابت نہیں دوسرا غیر نبی کو نبی سے افضل کہنا کفر ہے یونہی ایک نبی علیہ السلام کی ولادت کا تذکرہ اس انداز سے کرنا بے ادبی ہے۔لیکن بدقسمتی سے اس طرح کی باتیں اہل سنت کہلانے والے کئی جاہل پیر اور مقررین کہتے ہیں۔

کئی نیم رافضی اہل سنت کا لیبل لگاکر مولا علی شیر خدا کی شان بیان کرتے ہوئے ان کو تمام صحابہ کرام سے افضل کہہ رہے ہیں ۔کئی اہل سنت کے لوگ اس دن کے اہتمام میں نیم رافضی مولویوں سے تقرریریں کروارہے ہیں اور کئی جاہل مقررین اس دن کو ولادت مولا علی رضی اللہ تعالی عنہ کانہ ماننے پر طعن و تشنیع کے ساتھ ساتھ ناصبیت کا بہتان لگارہے ہیں۔لہذا عوام اہل سنت کو چاہیے کہ اس مسئلہ میں زیادہ شدت نہ کی جائے اور نہ ہی اس دن کو شرعی حدود سے تجاوز کیا جائے۔

اس مسئلہ کی تفصیل اب مدلل انداز میں پیش خدمت ہے:

مستند کتب میں اس کی صراحت ہے کہ خانہ کعبہ میں سوائے حضرت حکیم بن حِزام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کسی کی پیدائش نہیں ہوئی۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خانہ کعبہ میں پیدائش کے متعلق روایت کو علماء کرام نے ضعیف کہا ہے۔ علماء کرام فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ولادت شعب بنی ہاشم میں ہوئی۔

امام نووی(المتوفی676ھ) ،تہذیب الاسماء واللغات میں،امام جلال الدین سیوطی(المتوفی911ھ)،تدریب الراوی میں،علامہ شمس الدین محمد بن عمر بن احمد السفیری(المتوفی956ھ)،المجالس الوعظیۃ میں،علامہ محمد بن علی بن محمد البکری الصدیقی(المتوفی1057ھ)،دلیل الفالحین لطرق ریاض الصالحین میں،علامہ شہاب الدین احمد بن محمد بن عمر خفاجی(المتوفی1069ھ)،نسیم الریاض میں،ملا علی قاری (المتوفی1014ھ)شرح شفاء میں لکھتے ہیں

’’(وحکیم بن حزام)۔۔ ولد فی الکعبۃ قبل عام الفیل بثلاث عشرۃ سنۃ ولا یعرف أحد ولد فی الکعبۃ غیرہ علی الأشہر‘‘

ترجمہ:حضرت حکیم بن حزام فیل والے سال (یعنی جس سال ہاتھیوں کےساتھ کعبہ پر حملہ کیا گیا تھا) سے تیسرا سال پہلے کعبہ میں پیدا ہوئے ۔ان کے علاوہ کسی اور کا خانہ کعبہ میں پیدا ہونا شہرت کے طور پر نہیں جانا گیا ۔(شرح الشفا،جلد1،صفحہ159، دار الکتب العلمیۃ،بیروت)

علی بن إبراہیم بن أحمد الحلبی (المتوفی1044ھ) رحمۃ اللہ علیہ السیرۃ الحلبیۃ میں لکھتے ہیں

’’حکیم بن حزام ولد فی جوف الکعبۃ، ولا یعرف ذلک لغیرہ وأما ما روی أن علیا ولد فیہا فضعیف عند العلماء ‘‘

ترجمہ: حکیم بن حزام رضی اللہ تعالیٰ عنہ خانہ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے اور ان کے علاوہ کسی اور کا خانہ کعبہ میں پیدا ہونا معلوم نہیں۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا حانہ کعبہ کے اندر پیدا ہونے کی روایت علماء کرام کے نزدیک ضعیف ہے۔ (السیرۃ الحلبیۃ ،جلد1،صفحہ202،دار الکتب العلمیۃ،بیروت)

المجموع شرح المہذب میں اما نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں

’’وأما حکیم ابن حزام بالزای فہو أبو خالد حکیم بن حزام بن خویلد بن أسد بن عبد العزی أسلم یوم الفتح وکان ولد فی جوف الکعبۃ ولم یصح أن غیرہ ولد فی الکعبۃ‘‘

یعنی حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے علاوہ کسی اور کے خانہ کعبہ میں پیدا ہونے کی روایت صحیح نہیں۔ (المجموع شرح المہذب،جلد2،صفحہ66، دار الفکر،بیروت)

امام حافظ ابوعمرو خلیفہ بن خیاط اللیثی(المتوفی 240ھ)،تاریخ خلیفہ میں،امام حافظ ابوالقاسم علی بن حسن بن ہبۃ اللہ شافعی(المتوفی 571 ھ)،تاریخ دمشق میں،علامہ ابوالفضل جمال الدین محمد بن مکرم ابن منظور (المتوفی 711ھ) میں،احمد بن محمد بن عبدربہ الاندلسی(المتوفی 328ھ)،کتاب العقد الفریدمیں فرماتے ہیں

’’ولد علی بمکۃ فی شعب بنی ہاشم‘‘

ترجمہ: حضرت علی المرتضی رضی اللہ تعالی عنہ مکہ میں شعب بن ہاشم میں پیدا ہوئے۔(تاریخ دمشق،جلد42،صفحہ575،دار الفکر،بیروت)

13 رجب المرجب اور خانہ کعبہ میں مولا علی المرتضی رضی اللہ تعالی عنہ کی ولادت کے حوالے سے ڈاکٹر فیض احمد چشتی صاحب لکھتے ہیں:

”پہلی بات یہ ہے کہ جن کتابوں میں اس کو ذکر کیا گیا تو وہاں صیغہ تمریض جیسے قِیْل ، رُوِیَ وغیرہ کے ساتھ ذکر کیا گیا لہٰذا یہ بات معتبر نہیں ۔

دوسری بات یہ ہے کہ صرف شہرت کی وجہ سے سند اور معتبر مآخذ کے ذکر کے بغیر لکھ دیا گیا لہٰذا جب تک معتبر ماخذ نہیں مل جاتا تب تک یہ بات قابلِ قبول نہیں ہے ۔

تیسری بات یہ ہے کہ جنہوں نے ماخذ بیان کیا ہے،وہ یا تو شیعوں کی کتب ہیں یا ایسے شیعوں کی طرف مائل حضرات کی کتب ہیں جنہوں نے بہت ساری شیعی روایات کو بغیر تحقیق و تنقیح کے نقل کر دیا جیسے امام ذہبی ، ملا علی قاری اور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی علیہم الرحمہ نے مستدرک للحاکم کے حوالے سے اور بعض نے مروج الذہب اور فضول المھمہ کے حوالے سے نقل کیا ہے ۔

حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو مولودِ کعبہ سمجھنا ایسا کمزور گمان ہے جس کے ثبوت پر کوئی صحیح دلیل نہیں کیونکہ آپ کرم اللہ وجہہ الکریم اپنے والد حضرت ابوطالب کے مکان شعبِ بنی ہاشم کے اندر پیدا ہوئے جس مکان کو لوگ مولدِ علی رضی اللہ عنہ کے نام سے یاد کیا کرتے تھے اور اس مکان کے دروازے پر یہ عبارت لکھی ہوئی تھی

” ھذا مولد امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب “

یعنی یہ حضرت امیر المومنین علی بن ابوطالب کرم اللہ وجہہ الکریم کی ولادت گاہ ہے ۔

اور اہلِ مکہ بھی اس پر بغیر اختلاف کے متفق تھے ۔ نیز آپ کرم اللہ وجہہ الکریم کی ولادت گاہ پر ایک قبہ بنا ہوا تھا جس کو نجدیوں نے دیگر مقامات مقدسہ کے ساتھ گرادیا ۔۔۔

سیدنا ابوبکر صدیق و سیدنا علی اور لاکھوں صحابہ کرام اہل بیت سادات کرام رضی اللہ عنہم میں سے اکثر کی متعین تاریخ ولادت مستند باسند کتابوں میں نہیں آئی اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی ولادت کعبہ کے اندر ہونے کا واقعے کی اگرچہ صحیح متصل سند نہ ملی ۔ مگر مجموعی طور یہ کہہ سکتے ہیں کہ شیعہ کے مرچ مسالے جھوٹ بے بنیاد نظریات نکال کر فقط اتنا کہہ سکتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی ولادت اندازاً تیرہ رجب کعبہ میں ہوئی اور یہ خصوصیت صرف سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی نہیں بلکہ صحابی سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ بھی کعبہ کے اندر پیدا ہوےتھے ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تاریخ پر لکھی ہر کتاب بلکہ اس کے علاوہ بہت کتابوں میں سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کے متعلق یہی لکھا ہے ۔ مثلا صحیح مسلم کتاب البیوع باب الصدق فی البیع والبیان میں امام مسلم فرماتے ہیں : ولد حکیم بن حزام فی جوف الکعبۃ ۔ سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ عین کعبہ کے اندر پیدا ہوئے ۔

ایسے الفاظ کی وضاحت بھی ضروربیان کی جائے کہ جس سے غلط بے بنیاد نظریات کی تردید ہو ۔مثلا وحی یا تقابل ولادت سیدنا عیسیٰ علیہ السلام وغیرہ کا رد کیا جائے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ولادت کعبہ میں ہونے کو بیان کیا جائے تو ساتھ میں یہ بھی بیان کیا جائے کہ صحابی سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کی ولادت بھی کعبہ کے اندر ہوئی ۔ اس طرح غلط بے بنیاد نظریات خودبخود ختم ہوجائیں گے ۔

حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی ولادت کب ہوئی اور کہاں ہوئی ؟ اس بارے میں اہل سنت اہلِ تشیع اور دیگر مسالک کی کافی کتب کا بغور مطالعہ کیا اور راقم اس نتیجے پر پہنچا کہ : پہلے کے زمانے میں متعین تاریخ ولادت کا اہتمام نہ تھا ، سیدنا ابو بکر صدیق اور سیدنا علی اور بہت سارے صحابہ اہلِ بیت رضی اللہ عنہم کی تاریخِ ولادت مستند کتابوں میں نہیں آئی ۔ حتیٰ کہ جو 13 رجب مشہور ہے اس کی تحقیق و تفصیل دیکھی جائے تو 13 رجب اندازہ کرکے بتائی گئی ہے ۔ تیرہ رجب کی ولادت کی تاریخ کا جس واقعہ سے اندازہ کیا گیا وہ آگے عرض کیا جائے گا ۔ پھر اس اندازے کو بعد کی دو چار کتابوں میں اندازے کا تذکرہ کیے بغیر اتنا لکھ دیا گیا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ تیرہ رجب میں پیدا ہوئے ۔

جس واقعے سے 13رجب ولادت کا دن ہونے کا اندازہ لگایا گیا اسی واقعے سے یہ ثابت کیا گیا کہ آپ کی ولادت کعبے کے اندر ہوئی ۔

ولادت والا واقعہ : شیعہ کتب میں واقعہ درج ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی والدہ کو وحی ہوئی ، کچھ کتابوں میں ہے کہ الھام ہوا کہ کعبے میں جائے ، کیونکہ ولادتِ علی رضی اللہ عنہ کا وقت قریب ہے ۔ وہ کعبے میں گئیں دردِ زہ ہوا اور کعبے کے اندر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی ولادت ہوئی ۔

کچھ کتب میں اس کی مزید تفصیل یوں ہے کہ کعبہ کے اندر کا دروازہ کبھی کبھار ہی کھلتا تھا ۔15 رجب حضرت موسی علیہ السلام کی ولادت کے دن کے موقعے پر چار پانچ دن کےلیے کعبے کا اندر کا دروازہ بھی کھلتا تھا ۔ باپردہ خواتین 15 رجب سے دو تین دن پہلے ہی زیارت کر آتی تھیں ۔ اس طرح اندازہ لگایا گیا کہ 13 رجب کو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی والدہ کعبہ گئی ہوں گی ۔ پھر اہل تشیع نے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام سے بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کو افضل کہہ دیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت کے وقت بی بی مریم رضی اللہ عنہا کو بیت المقدس سے باہر بھیجا گیا اور یہاں کعبہ کے اندر ولادتِ علی رضی اللہ عنہ کا حکم دیا گیا ۔

شاہ عبد العزیز دہلوی علیہ الرحمہ کا تبصرہ : تحفہ اثنا عشریہ صفحہ 164,165،166 میں شاہ صاحب علیہ الحمہ نے مذکورہ روایت اور مذکورہ واقعہ کو جھوٹ دھوکہ قرار دیا ۔ فرمایا کہ کسی معتبر کتاب میں ، حدیث میں کہیں یہ نہیں آیا کہ بی بی مریم کو بیت المقدس سے نکل جانے کا حکم ہوا ہو ۔ ہرگز نہیں ۔ اور فرمایا کہ کسی معتبر کتاب میں یہ نہیں کہ ولادتِ علی رضی اللہ عنہ کےلیے کعبہ جانے کا حکم ہوا ہو ۔ ہرگز نہیں۔ وہ ایک اتفاق تھا ۔ وحی کا کہنا تو کفر ہے ۔ شاہ صاحب علیہ الرحمہ نے 13 رجب پر گفتگو نہ فرمائی ۔ البتہ ان کے کلام سے واضح ہوتا ہے کہ شیعہ کے مرچ مسالے جھوٹ بے بنیاد غلط نظریات نکال کر یہ کہہ سکتے ہیں کہ اتفاقاً عورتوں کے ساتھ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی والدہ رضی اللہ عنہ بھی کعبہ کی زیارت کوگئی ہوں اور وہاں اتفاقاً دردِ زہ زیادہ ہوگیا ہو اور اس طرح سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی ولادت کعبہ میں ہوئی ہو مگر شاہ صاحب علیہ الرحمہ نے ساتھ میں دو ٹوک ارشاد فرمایا کہ اس سے افضلیت وغیرہ شیعہ کے دعوے ثابت نہیں ہوتے کیونکہ صحابی سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ بھی کعبہ کے اندر پیدا ہوئے ۔

کئی کتب میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے کعبہ میں پیدا نہ ہونے کا لکھا ہوا ہے ۔ چند اہلسنت کتابوں میں بغیر سند و ثبوت کے آپ کی ولادت کعبہ میں ہونے کا لکھا ہے ۔“

( https://faizahmadchishti.blogspot.com/2022/02/blog-post_63.html)

واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم

کتبـــــــــــــــــــــــــــہ

ابو احمد مفتی محمد انس رضا قادری

13رجب المرجب 1445ھ25جنوری 2024ء

اپنا تبصرہ بھیجیں