حضرت جبرائیل امین علیہ السلام کو حضور علیہ السلام کا استاد کہنا؟

حضرت جبرائیل امین علیہ السلام کو حضور علیہ السلام کا استاد کہنا؟

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کو حضور علیہ السلام کا استاد کہنا درست ہے یا نہیں؟

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق و الصواب

حضرت جبرائیل علیہ السلام حضور صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے مطلقا استاد نہیں ہیں البتہ ان کو حضور علیہ الصلوۃ و السلام کا مِنْ وَجْہٍ (یعنی ایک اعتبار سے)استاد کہنا درست ہے۔ یقیناً اللہ پاک نے پیارے محبوب صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کو قرآن سکھایا، جیسا کہ قرآن مجید کی سورۃ الرحمٰن میں اللہ کریم نے مشرکین کے اس قول کہ انہیں کوئی بشر سکھاتا ہے، کے رد میں صراحت فرمائی ہے۔ اور سورۃ النجم میں فرمایا کہ انہیں سخت قوتوں والے طاقتور نے (قرآن) سکھایا۔ چونکہ حضور علیہ الصلٰوۃ و السلام تک اللّٰہ پاک کا پیغام اور وحی پہنچانے میں حضرت جبریل علیہ السلام واسطہ ہیں، لہذا علماء کرام نے فرمایا کہ مِنْ وَجْہٍ یعنی صرف ایک جہت سے حضرت جبریل علیہ السلام معلم(یعنی استاذ) ہیں۔ مِنْ کُلِّ الْوُجُوْہ یعنی ہر اعتبار سے استاذ نہیں۔

اللّٰہ تبارک و تعالی ارشاد فرماتا ہے:

”اَلرَّحْمٰنُ. عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ“

ترجمۂ کنز العرفان:رحمٰن نے قرآن سکھایا۔(پارہ:27،سورۃ الرحمٰن، تحت الآیۃ: 1-2)

تفسیر صراط الجنان میں تفسیر خازن کے حوالے سے ہے:

”{اَلرَّحْمٰنُ: رحمٰن۔} اس آیت کے شانِ نزول کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ اہل ِمکہ نے جب کہا کہ محمد (مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کو کوئی بشر سکھاتا ہے تو یہ آیت نازل ہوئی اور اللہ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی نے فرمایا کہ رحمٰن نے قرآن اپنے حبیب محمد مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو سکھایا۔“(تفسیر صراط الجنان،پارہ:27، سورۃ الرحمٰن، تحت الآیۃ:1-2، مکتبۃ المدینہ)

اللّٰہ پاک نے ارشاد فرمایا:

”عَلَّمَهٗ شَدِیْدُ الْقُوٰى. ذُوْ مِرَّةٍ فَاسْتَوٰى“

ترجمۂ کنزالعرفان: انہیں سخت قوتوں والے،طاقت والے نے سکھایا، پھر اس نے قصد فرمایا۔(القرآن الکریم،سورہ النجم،آیت 5-6)

تفسیر طبری میں ہے:

”وقوله ( عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوَى ) : يقول تعالى ذكره: عَلَّم محمدا صلى الله عليه وسلم هذا القرآن جبريلُ عليه السلام , وعُنِي بقوله ( شَدِيدُ الْقُوَى ) شديد الأسباب“

ترجمہ:اور اللہ پاک کا فرمان”اسے سخت قوتوں والے نے سکھایا، اللّٰہ جس کا ذکر بلند ہے فرماتا ہے:حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ قرآن جبریل علیہ السلام نے سکھایا اور اس کے فرمان”شدید القوی” سے مراد سخت اسباب یعنی طاقت و قوت والے۔(تفسیر طبری،سورہ نجم،آیت:5، ص526، مشروع المصحف الالکترونی بجامعۃ الملک سعود)

تفسیر کبیر میں ہے:

” وقولہ شدید القوی ، فیہ فوائد الاولٰی ان مدح المعلم مدح المتعلم فلوقال علمہ جبرائیل ولم یصفہ ماکان یحصل للنبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بہ فضیلۃ ظاھرۃ، الثانیۃ ھی ان فیہ ردّاً علیھم حیث قالوا اساطیر الاولین سمعھا وقت سفرہ الی الشام فقال لم یعلمہ احد من الناس بل معلمہ شدید القوی“

ترجمہ: اللہ تعالٰی کے ارشاد “شدید القوٰی” میں کئی فائدے ہیں، پہلا فائدہ یہ ہے کہ معلم(یعنی سکھانے والے،استاد)کی مدح یعنی تعریف متعلم (یعنی سیکھنے والے، شاگرد) کی مدح (تعریف)ہوتی ہے، اگر اللہ تعالی یوں فرماتا کہ اس کو جبرائیل نے سکھایا ہے، اور وصف “شدید القوٰی” سے اس کو متصف نہ فرماتا تو اس سے نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو فضیلت ظاہرہ حاصل نہ ہوتی، دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اس میں ان لوگوں کا رد ہے جنہوں نے کہا یہ پہلے لوگوں کے قصے ہیں جن کو انہوں نے شام کی طرف سفر کے دوران سُن لیا ہے ، تو اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ انہیں لوگوں میں سے کسی نے نہیں سکھایا ان کا معلم(استاد) تو شدید القوٰی ہے۔ (مفاتیح الغیب‹التفسیر الکبیر›،سورہ النجم، الآیۃ:5، ج28، ص245، دارالکتب العلمیہ بیروت)

سیدی اعلی حضرت علیہ رحمۃ رب العزت فرماتے ہیں:

” جبرئیل علیہ السلام مِن وَجہٍ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے استاذ ہیں، قال تعالی:عَلَّمَهٗ شَدِیْدُ الْقُوٰى.

یعنی سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو سخت قوتوں والے طاقتور نے(قرآن)سکھایا۔“(سورۃ النجم،آیت 5)

خلیل ملت حضرت مفتی خلیل خان برکاتی اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

”یعنی جبرائیل علیہ السلام نے (سکھایا) جو قوت و اجلال خداوندی کے مظہرِ اتم ، قوت جسمانی وعقل و نظر کے اعتبار سے کامل وحی الہٰی کے بار کے متحمل ، چشم زدن میں سدرۃ المنتہٰی تک پہنچ جانے والے جن کی دانشمندی اور فراست ایمانی کا یہ عالم کہ تمام انبیائے کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی بارگاہوں میں وحی الہی لے کر نزول اجلال فرماتے اور پوری دیانتداری سے اس امانت کو ادا کرتے رہے۔“(اعتقاد الاحباب ‹دس عقیدے›، عقیدہ رابعہ، ص69-70، مکتبۃ المدینہ)

مکتبۃ المدینہ کی کتاب “دس اسلامی عقیدے” میں ہے:

”بے شک اللّٰه پاک نے نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو علم دیا اور سکھایا، مگر بیچ میں حضرت جبریل علیہ السلام کا واسطہ ہے کہ اللّٰه پاک جو بھی وحی اِرشاد فرماتا تو حضرت جبریل علیہ السلام آکر آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کو اس کی تلقین کرتے، اسی وجہ سے حضرت جبریل علیہ السلام کو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا من وجہٍ استاد فرمایا، من کل الوجوہ یعنی ہر اعتبار سے استاذ نہیں۔ صرف ایک جہت سے استاذ ہیں کہ اللہ پاک اور اس کے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درمیان واسطہ بنے۔“(دس اسلامی عقیدے،صفحہ91، مکتبۃ المدینہ کراچی)

واللّٰہ تعالی اعلم و رسولہ اعلم باالصواب

صلی اللّٰہ تعالی علیہ و علی آلہ و اصحابہ و بارک و سلم

ابوالمصطفٰی محمد شاہد حمید قادری

10رجب المرجب1445ھ

22جنوری2023ء، پیر

اپنا تبصرہ بھیجیں