انجینئر مرزا کا کہنا کہ دعوت اسلامی اپنے فرقہ کی دعوت دیتی ہے

انجینئر مرزا کا کہنا کہ دعوت اسلامی اپنے فرقہ کی دعوت دیتی ہے

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کہ انجینئر محمد علی مرزا کا بیان ہے کہ دعوت اسلامی دین کی نہیں بلکہ اپنے فرقہ کی طرف دعوت دیتی ہے،ورنہ تو نماز دیگرفرقے والے بھی ادا کرتے ہیں۔پھر ان کی اپنی نماز بھی اس بخاری جیسی نہیں جن کو مولانا الیاس قادری صاحب بھی قرآن کے بعد مستند کتاب مانتے ہیں کہ بخاری میں رفع یدین کے ساتھ نماز کا ذکر ہےجبکہ یہ بغیر رفع یدین کے نماز پرھتے ہیں۔یونہی جن کو دعوت اسلامی والے گیارہویں کا پیر غوث پاک کہتے ہیں وہ بھی رفع یدین کے ساتھ نماز پرھتے تھے۔مزید مرزا کا بیان ہے کہ اہل سنت مکہ و مدینہ کے مولویوں کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے۔ مرزا انجینئر نے اپنا موقف بیان کیا کہ میرے نزدیک تمام فرقے گمراہ ہیں ،لیکن ان کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے۔آپ اس حوالے سے کیا کہتے ہیں؟

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الوہاب اللہم ہدایۃالحق والصواب

انجینئر مرزا کا مختصر تعارف

مرزا انجینئر آدھا رافضی اور آدھا خارجی ہے،ان دونوں نظریات کو ملا کر اس نے ایک نیا فرقہ بنام”کتابیہ “ کی بنیاد رکھی ہے۔ جس طرح احادیث کے منکر ”اہل القرآن“ کہلواتے ہیں،فقہ کے منکر ”اہل حدیث “ ہیں،یونہی جاہل انجینئر نے لوگوں کو رعایتی فتوے دینے اور ان کے اخلاقیات تباہ کرتے ہوئے یہی باور کرواتا ہے کہ وہ فرقہ واریت سے پاک ”علمی کتابی“ بندہ ہے،حالانکہ چند احادیث کے ترجمے اس نے پڑھ لیے ہیں جن کو بغیر سمجھے بیان کررہا ہوتا ہے ،جب علمائے اہل سنت اس کے موقف کا مدلل رد کرتے ہیں تو ان کے چیلے گالی گلوچ پر اترآتے ہیں۔

رافضی اور خارجی دونوں فرقے گستاخ و بے ادب ہیں اس لیے انجینئر اور اس کے پیروکار انتہائی بدتمیز اور شرعی مسائل میں بے باک ہے۔ ان کے پاس اپنے باطل نظریات پرمضبوط دلائل نہیں بس علمائے اہل سنت کے بیانات کو مذاقیہ روپ میں پیش کرکے اس کا مذاق اڑا کر عوام کو علمائے کرام سے دو رکرکے،فرقہ واریت کی بظاہر مذمت کرکے خود اپنے فرقہ کو عام کررہے ہیں۔ موجودہ دور میں جس نے بھی کوئی بھی نیا فرقہ بنانا ہو تو ا س کا یہی طریقہ ہے کہ خوب فرقہ واریت کی مخالفت کرو اور تمام فرقوں کو گمراہ کہو۔

انجینئر مرزا ایک طرف رافضی بنتے ہوئے صحابہ کرام بالخصوص حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر طعن کرتا ہے اور دوسری طرف خارجیت کا کردار ادا کرتے ہوئے غیر مسلموں کی حمایت جیسے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا نظریہ،نیز ہندؤ شخص دَروو راٹھی کی تعریف اور اس کے لیے دعائیہ کلمات کہنااور دوسری طرف مسلمان پیشواؤں کی اس انداز سے تحقیر کہ ”بابے تے شے ای کوئی نئیں“خارجی فرقے کی یہی پہچان حضور علیہ السلام نے ارشاد فرمائی تھی اور خارجی حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنے سے کم علم سمجھتے تھے۔

صحیح البخاری میں ہے

’’یَقْتُلُونَ أَہْلَ الإِسْلاَمِ وَیَدَعُونَ أَہْلَ الأَوْثَانِ‘‘

ترجمہ:(خارجی)مسلمانوں کو قتل کریں گے اور بت پرستوں کو چھوڑ دیں گے۔(صحیح البخاری،کتاب احادیث الانبیاء ،باب قول اللہ عز وجل:وأما عاد فأہلکوا بریح صرصر،جلد4،صفحہ137،دار طوق النجاۃ،مصر)

علامہ ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ تلبیس ابلیس میں فرماتے ہیں

’’وکانت الخوارج تتعبد إلا أن اعتقادہم أنہم أعلم من علی بن أبی طالب کرم اللہ وجہہ وہذا مرض صعب‘‘

ترجمہ:خارجی لوگ بہت عبادت کیاکرتے تھے مگر ان کا یہ اعتقاد تھا کہ وہ لوگ علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بڑھ کر عالم ہیں اور یہ اعتقاد ان کا سخت( مہلک )مرض تھا۔(تلبیس ابلیس،الباب الخامس،ذکر تلبیس إبلیس علی الخوارج،صفحہ82،دار الفکر،بیروت)

دعوت اسلامی کیا اپنے فرقہ کی دعوت دیتی ہے؟

رافضی نظریا ت ہونے کے سبب مرزا حضور علیہ السلام کے علم غیب و تصرفات کا منکر ہے لیکن خود غیب کا دعوی کررہا ہے کہ لاکھوں دعوت اسلامی والے کس نیت سے نیکی دعوت دیتے ہیں یہ غیبی علم انجینئر کو معلوم گیا ہے۔نیز ایک طرف مرزا فرقہ واریت کی مذمت کرتا ہےا ور دوسری طرف اس کا ویڈیو کلپ موجود ہے جس میں اس نے خود کو اہل سنت گروہ میں رکھا ہے ۔ الحمدللہ دعوت اسلامی اہل سنت و جماعت کی عظیم تحریک ہے،یہ کوئی الگ نیا فرقہ نہیں جس کی تبلیغ کی جاتی ہے۔دعوت اسلامی کا مقصد لوگوں کو گمراہی سے بچا کر اہل سنت پر قائم رکھتے ہوئے باعمل بنانا ہے ۔اہل سنت ہی جنتی گروہ ہے جیسا کہ احادیث اور محدثین ،مفسرین،متکلمین،فقہائے اسلام اور علمائے کرام کے واضح ارشادات سے ثابت ہے ۔(تفصیل کے لیے فقیر کی کتاب ”دین کس نے بگاڑ ا“ملاحظہ ہو)ابن ماجہ کی حدیث میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا

’’إِنَّ أُمَّتِی لَا تَجْتَمِعُ عَلَی ضَلَالَۃٍ، فَإِذَا رَأَیْتُمُ اخْتِلَافًا فَعَلَیْکُمْ بِالسَّوَادِ الْأَعْظَمِ‘‘

ترجمہ: میری امت گمراہی پر جمع نہیں ہوگی ۔جب تم اختلاف (فرقہ واریت) دیکھو تو تم پر بڑے گروہ کی اتباع لازم ہے۔ ( ابن ماجہ،کتاب الفتن ،باب السواد الأعظم،جلد2،صفحہ1303،دار إحیاء الکتب ،الحلبی)

سواد اعظم پر کلام کرتے ہوئے امام جلال الدین سیوطی فرماتے ہیں

’’فعلیکم بالسواد الأعظم أی جملۃ الناس ومعظمہم الذین یجتمعون علی طاعۃ السلطان وسلوک النہج المستقیم کذا فی المجمع فہذا الحدیث معیار عظیم لأہل السنۃ والجماعۃ شکر اللہ سعیہم فانہم ہم السواد الأعظم وذلک لا یحتاج الی برہان فإنک لو نظرت الی أہل الأہواء بأجمعہم مع انہم اثنان وسبعون فرقۃ لا یبلغ عددہم عشر أہل السنۃ ‘‘

ترجمہ:تم پر سواد اعظم کی اتباع لازم ہے یعنی اس سواد اعظم کی اتباع جوسلطان کی اطاعت اور صراطِ مستقیم پر گامزن رہے جیسا کہ مجمع میں ہے۔ یہ حدیث(سوادِاعظم کی اتباع کرو) اہل سنت کا معیار عظیم ہے ۔ اللہ عزوجل نے اہل سنت کی کوشش کو قبول کیا اور اہل سنت وجماعت ہی سوادِ اعظم ہے جو کسی دلیل کی محتا ج نہیں۔اگر تو گمراہ فرقوں کی طرف نظر کرے تو اگر بہتر کے72 گمراہ فرقے اکٹھے ہوجائیں وہ اہل سنت کی تعداد کے دسویں حصے تک بھی نہیں پہنچ سکتے۔ (شرح سنن ابن ماجہ،جلد1،صفحہ283،قدیمی کتب خانہ ،کراچی)

تفسیر القرآن العظیم میں اسماعیل بن عمر( ابن کثیر)(المتوفی 774ھ) لکھتے ہیں

’’کلہا ضلالۃ إلا واحدۃ وہم أہل السنۃ والجماعۃ المتمسکون بکتاب اللہ وسنۃ رسول اللہ‘‘

ترجمہ:سوائے ایک اہل سنت وجماعت فرقے کے بقیہ تمام فرقے گمراہ ہیں اور اہل سنت وجماعت فرقے ہی نے کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مضبوطی سے تھاما ہوا ہے۔ (تفسیر القرآن العظیم،جلد6،صفحہ317،دار طیبۃ)

فرقہ واریت تو انجینئر اور اس جیسے دیگر گمراہ لوگ پھیلا رہے ہیں ۔لہذا مرزا کا دعوت اسلامی یا اہل سنت گروہ پر تنقید کرنا درست نہیں ۔

صحیح بخاری اور رفع یدین

مرزا انجینئر کا اس وجہ سے دعوت اسلامی اور اہل سنت پر تنقید کرنا کہ” یہ رفع یدین نہیں کرتے جبکہ بخاری شریف میں رفع یدین کے ساتھ نماز پر احادیث ہیں۔“ یہ انجینئر کی انتہائی جہالت ہے کہ اسے فقہی اختلاف کی شرعی حیثیت ہی معلوم نہیں۔فقہ میں اختلاف ناجائز و غیر معتبر نہیں ،عقائد میں اختلاف گمراہی ہے۔ فقہ میں چاروں امام اہل سنت ہیں اور سب کے پاس احادیث ہی ہیں جن کی روشنی میں فقہی اختلاف موجود ہے۔امام بخاری چونکہ غیر حنفی تھے اس لیے انہوں نے اپنے موقف پر احادیث جمع کی ہیں، ایسا نہیں کہ صحیح بخاری کے علاوہ احادیث صحیح ہی نہیں ہیں۔لہذا صحیح بخاری کے مطابق ہی نماز پڑھنے پر بضد رہنا تو تقلید ہے اور انجینئر تقلید سے آزاد رعایتی من پسند فتوے دینے والا سیکولر قسم کا اسکالر ہے۔

احناف کے نزدیک رفع یدین اگرچہ احادیث سے ثابت ہے لیکن بعد میں منسوخ ہوچکا ہے ،یہی وجہ ہے کہ صحیح احادیث سے رفع یدین نہ کرنا بھی ثابت ہے۔مصنف ابن ابی شیبہ،مسند بزار،جامع ترمذی،مسند احمد،مسند ابو یعلی ،سنن ابودائود اور سنن نسائی کی بسند صحیح حدیث پاک ہے

’’عن علقمۃ، عن عبد اللہ أنہ قال ألا أصلی بکم صلاۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم؟ فصلی فلم یرفع یدیہ إلا مرۃ واحدۃ،(حکم الألبانی) صحیح‘‘

ترجمہ:حضرت علقمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایاکیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز نہ پڑھاؤں،پھر نماز پڑھائی تو تکبیر تحریمہ کے علاوہ رفع یدین نہیں کیا۔غیر مقلدوں کے امام البانی نے اس حدیث کو صحیح کہا۔(سنن نسائی ،کتاب التطبیق،الرخصۃ فی ترک ذلک،جلد2،صفحہ195،مکتب المطبوعات الإسلامیۃ،حلب)

اس حدیث کے علاوہ بھی کثیر احادیث سے رفع یدین نہ کرنا ثابت ہے ۔(ملاحظہ ہو فقیر کی کتاب”دلائل احناف“)نیزحضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے رفع یدین کی روایات بخاری و مسلم وغیرہ میں منقول ہیں جبکہ ان سے رفع یدین نہ کرنا بھی ثابت ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے استاد ابن ابی شیبہ اپنی مصنف میں روایت کرتے ہیں

’’عن مجاہد قال ما رأیت ابن عمر، یرفع یدیہ إلا فی أول ما یفتتح‘‘

ترجمہ:حضرت مجاہد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا میں نے ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو دیکھا کہ وہ نماز کے شروع کے علاوہ رفع یدین نہیں کرتے تھے۔(مصنف ابن شیبہ،کتاب الصلوٰۃ،من کان یرفع یدیہ فی أول تکبیرۃ ثم لا یعود،جلد1،صفحہ214،مکتبۃ الرشد ،الریاض)

غوث پاک رحمۃ اللہ علیہ اور رفع یدین

مرزا کا یہ اعتراض بھی جہالت پر مبنی ہے۔ حضور غوث پاک رحمۃ اللہ علیہ حنبلی تھے اور فقہ حنبلی میں رفع یدین کیا جاتا ہے،جبکہ ہم حنفی ہیں اور حنفیوں میں رفع یدین نہ کرنا سنت ہے۔غوث پاک طریقت میں ہمارے مرشد ہیں ،فقہ میں ہمارے امام حضرت امام ابوحنفیہ رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔راہ سلوک میں یہ ضروری نہیں کہ مرشد جس فقہ سے تعلق رکھتا ہو،مرید بھی اسی فقہ سے تعلق رکھے۔ یہی وجہ ہے کہ صوفیائے کرام میں ہر کوئی مختلف ائمہ کی پیروی کرنے والا ہے ۔یہ اختلاف صرف فروعی مسائل میں ہوتاہے عقائد و طریقت میں سب اہل سنت وجماعت ہیں۔ اس لئے حضرت غوث پاک رحمۃ اللہ علیہ حنبلی ہیں اور دنیا میں انکے موجودمرید قادری حنفی ، شافعی، حنبلی ،مالکی سب طرح کے ہیں۔ بلکہ حضور غوث پاک کے مرشدوں میں سے معروف کرخی رحمۃ اللہ علیہ ہیں جو کہ حنفی بزرگ تھے چنانچہ علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ ردالمحتار کے مقدمے میں مشائخ احناف کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں

’’قولہ ومعروف الکرخی بن فیروز ، من المشایخ الکبار ، مجاب الدعوۃ ، یستسقی بقبرہ وہو أستاذ السری السقطی ‘‘

ترجمہ: حضرت معروف کرخی بن فیروز اکابر مشائخ سے ہیں اور مستجاب الدعوات(جن کی دعا ئیں قبول ہوتی ) ہیں ۔ ان کی قبر سے سیرابی (بارش)طلب کی جاتی ہے ۔اور یہ حضرت سری سقطی رحمۃ اللہ علیہ کے استاد تھے۔(ردالمحتار، مقدمہ،جلد 1،صفحہ58،دارالفکر ،بیروت )

جیسا کہ پہلے عرض کیا کہ فقہی اختلاف مسئلہ نہیں عقائد میں اختلاف مسئلہ ہے۔ حضور غوث پاک رحمۃ اللہ علیہ اگرچہ حنبلی تھے لیکن اہل سنت و جماعت سے تعلق رکھتے تھے اور اسے ہی جنتی گروہ قرار دیتے تھے چنانچہ حضور غوث پاک شیخ عبدالقادر جیلانی (المتوفی 561ھ ) فرماتے ہیں:

’’اہل سنت کا صرف ایک ہی طبقہ ہے۔۔۔۔فرقہ ناجیہ(نجات والا گروہ) صرف اہل سنت کا ہے۔‘‘(غنیۃ الطالبین،صفحہ199،پروگریسو بک ڈپو،لاہور)

حضور غوث پاک رحمۃ اللہ علیہ نے فقہی اختلاف میں ایک دوسرے پر تنقید کرنے سے منع فرمایا ہے اور یہ واضح کیا ہے کہ جو جس امام کا مقلد ہے اس کی پیروی کرنا اس کے لیے درست ہے چنانچہ فرماتے ہیں:

”جن امور میں علماء اور فقہا کا اختلاف ہے اور اجتہاد کی گنجائش ہو ان کا رد یا انکار بھی جائز نہیں جیسے امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے مقلد کا تہبند پہننا اور بغیر ولی کے عورت کا نکاح کرنا جیسا کہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے مذہب کا مشہور مسلک ہے تو امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے مقلد کے لیے اس کے خلاف آواز اٹھانا جائز نہیں۔امام احمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ کسی فقیہ کے لیے جائز نہیں کہ وہ لوگوں کو اپنے مذہب پر ابھارے اور ان پر سختی کرے۔ حقیقت میں مخالفت کی آواز صرف اس صورت میں اٹھانا درست ہے جب اجماع کے خلاف ہورہا ہو۔“(غنیۃ الطالبین،صفحہ143،پروگریسو بک ڈپو،لاہور)

انجینئر مرزا کا باطل موقف کے گمراہ فرقوں کے پیچھے نماز جائز ہے

مرزا انجینئر کا یہ کہنا کہ تمام فرقے گمراہ اور میر ے نزدیک ان سب کےپیچھے نماز جائز ہے یہ عجیب اور غیر شرعی بات ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے اپنے موقف کے بھی خلاف ہے کہ اس نے کوخو دکو اہل سنت میں شمار کیا ہے،اگر اہل سنت بھی گمراہ ہے تو گویا یہ اس کااپنی گمراہی پر اقرار ہوگیا۔

نیزیہ کس حدیث یا فقیہ یا محدث کا قول ہے کہ گمراہ کے پیچھے نماز جائز ہے جبکہ احادیث میں تو بدمذہبوں کو امام بنانے کی ممانعت ہے اور صحابہ و تابعین اور فقہائے کرام سے ثابت ہے کہ بدمذہب کو امام بناناجائز نہیں۔

مزید یہ کہ تمام فرقے انجینئر مرزا کے نزدیک گمرا ہ ہیں تو کیا مرزے کے نزدیک قادیانی بھی مرتد نہیں فقط گمراہ ہیں اور ان کے پیچھے نماز کیا جائز ہے؟ جو شیعہ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تمام پچھلے انبیاء سے افضل کہے یا قرآن کو مکمل نہ مانے تو کیا انجینئر کے نزدیک وہ بھی امام بننے کے قابل ہے؟ کیا جو منکرین حدیث ہو چکڑالوی ،پرویزی یا غامدی تو کیا وہ بھی مرزا کے نزدیک امام بن سکتا ہے؟ نیز مرزا انجینئر حسام الحرمین کی تائید کرتے ہوئے دیوبندیوں کے چارمولویوں(قاسم نانوتوی،خلیل انبیٹھوی،رشید گنگوہی،اشرف تھانوی) کو مرتد مانتا ہے تو کیا جو دیوبندی ان چاروں کو اپنا امام مانتا ہو انجینئر کے نزدیک تب بھی اس کے پیچھے نماز جائز ہے اوروہ فقط گمراہ ہی رہے گا یا خود کافرہوجائے گا؟

انجینئر مرزا وہابی خارجیوں کی طرح انبیاء و صالحین سے مدد مانگنے کو شرک کہتا ہے،اہل سنت بریلویوں پر چشتی رسول اللہ کہنے کا بہتان لگاتا ہے تو کیا تب بھی مرزا کے نزدیک اہل سنت بریلوی کے پیچھے نماز جائز ہے؟اگر ان مذکورہ تمام صورتوں میں نماز جائز ہے تو مطلب یہ ہوا کہ کافر و مرتد قادیانی وغیرہ کے پیچھے بھی نماز جائز ہوگئی؟ اگر انجینئر یہ کہے کہ کافرو مرتد کے پیچھے جائز نہیں فقط گمراہ تک جائز ہے تو مرزا کے پیروکاروں کو کیسے پتہ چلے گا کہ اس شیعہ اور دیوبندی کے عقائد کیا ہیں؟یہ حد کفر تک ہے یا نہیں؟نیز تمام فرقے کس وجہ سے گمراہ ہیں؟ اس وجہ سے گمراہ ہیں کہ وہ انجینئر کو اپنا پیشوا نہیں مانتے یا کچھ نظریات میں مسئلہ ہے؟ اگر نظریات میں مسئلہ ہے تو جن فرقوں کو اہل سنت گمراہ کہتے ہیں وہ بھی نظریات ہی کے سبب کہتے ہیں۔

اہل سنت کے نزدیک امام ایسا ہونا چاہیے جو صحیح العقیدہ ہونے کے ساتھ ساتھ فسق و فجور سے بھی بچتا ہو۔حاکم مستدرک اور طبرانی معجم میں مرثد ابی مرثد غنوی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور سید عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں

” ان سرکم ان تقبل صلاتکم فلیؤمکم خیارکم فانھم وفدکم فیما بینکم وبین ربکم“

ترجمہ:اگر تمہیں اپنی نمازوں کا قبول ہونا خوش آتا ہو تو چاہئے جو تم میں اچھے ہوں وہ تمہارے امام ہوں کہ وہ تمہارے سفیر ہیں تم میں اور تمہارے رب میں۔ ( المستدرک علی الصحیحین، ذکر مناقب ابومرثد الغنوی،جلد3،صفحہ222، دارالفکر، بیروت )

دارقطنی و بیہقی اپنی سنن میں عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہما سے روایت کرتے ہیں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں

” اجعلواائمتکم خیارکم فانھم وفدکم فیما بینکم وبین ربکم“

ترجمہ: اپنے نیکوں کو امام کر و کہ وہ تمہارے وسیلہ ہیں تمہارے اور تمہارے رب عزّوجل کے درمیان۔ (سنن الدارقطنی ، باب تخفیف القرأۃ الحاجۃ ،جلد2،صفحہ88، مطبوعہ نشرالسنۃ ،ملتان )

بدمذہبوں سے دور رہنے ،ان سے تعلقات نہ رکھنے ،شادی کرنے اور ان کے پیچھے نماز اور ان کی نماز جنازہ پڑھنے کی ممانعت پر کنز العمال ،جلد11،صفحہ529، الجامع الصغیر ،جلد1، صفحہ 3461اورالسنۃ لابی بکر بن خلال میں حضرت سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث پاک ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں

’’إن اللہ اختارنی واختار لی أصحابا، فجعلہم أصحابی، وأصہاری، وأنصاری، وسیأتی قوم من بعدکم یسبونہم، أو قال ینتقصونہم، فلا تجالسوہم، ولا تؤاکلوہم، ولا تشاربوہم، ولا تناکحوہم، ولا تصلوا معہم، ولا تصلوا علیہم‘‘

ترجمہ: بے شک اللہ عزوجل نے مجھے چنا اور میرے لئے میرے صحابہ کو چنا پس ان کو میرے اصحاب بنایا ،میرے سسرالی رشتہ والے بنایا اور میرے مدد گار بنایا اور عنقریب تمہارے بعد ایک قوم آئے گی جو میرے صحابہ کو گالیا ں دی گی یا فرمایا کہ ان کی شان میں کمی کرے گی، پس تم ان کے ساتھ نہ بیٹھو اور نہ ان کے ساتھ کھاؤ ، نہ پیو ،اور نہ نکاح کرو ،اورنہ ان کے پیچھے نماز پڑھو اور ان کی نماز پڑھو۔ (السنۃ الابی بکر بن خلال ،ذکر اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم،جلد2،صفحہ483، دارالرایۃ ،الریاض)

(نوٹ: انجینئر مرزا برملا کئی صحابہ کرام پر طعن کرتا ہے تو اس حدیث کی وجہ سے ہی وہ گمراہ ثابت ہوگیا اگرچہ اس مرزا کی او ربھی کثیر گمراہیاں ہیں۔)

حضرت عثمان غنی کے دور میں خارجی باغیوں کا امام مسجد نبوی میں تھا جس کے پیچھے نماز پڑھنے کو صحابہ مکروہ جانتے تھے۔فتح الباری میں الامام الحافظ شہاب الدین ابن حجر العسقلانی(852ھ)اورعمدۃ القاری شرح صحیح البخاری میں ابو محمد محمود بن احمد الحنفی بدر الدین العینی (المتوفی855ھ)لکھتے ہیں

’’ عَن سہل بن یُوسُف الْأنْصَارِیّ عَن أَبِیہ قَالَ کرہ النَّاس الصَّلَاۃ خلف الَّذین حصروا عُثْمَان ‘‘

ترجمہ: سہل بن یوسف انصاری اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: لوگ ان کے پیچھے نماز پڑھنے کو مکروہ جانتے تھے جنہوں نے حضرت عثمان غنی کو محصور کیا ہوا تھا۔(عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری،کتاب مواقیت الصلوٰۃ،باب إمامۃ المفتون والمبتدع،جلد5،صفحہ231، دار إحیاء التراث العربی ،بیروت)

علمائے اسلاف نے صراحت کے ساتھ بدمذہبوں کے پیچھے نماز پڑھنے کو گناہ کہااور پڑھی گئی نماز کو دوبارہ پڑھنے کا حکم دیاہے ۔تذکرۃ الحفاظ میں حضرت امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ تابعی بزرگ حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت شعیب بن حرب رحمۃ اللہ علیہ کو فرمایا

’’لا تصلی إلا خلف من تثق بہ وتعلم أنہ من أہل السنۃ‘‘

ترجمہ: کسی کے پیچھے نماز نہ پڑھ جب تک تجھے یقین نہ ہوجائے کہ امام اہل سنت میں سے ہے۔ (تذکرۃ الحفاظ،جلد1،صفحہ153،دار الکتب العلمیۃ ،بیروت)

فتح القدیر میں ہے

’’وَرَوَی مُحَمَّدٌ عَنْ أَبِی حَنِیفَۃَ وَأَبِی یُوسُفَ رَحِمَہُمَا اللَّہُ أَنَّ الصَّلَاۃَ خَلْفَ أَہْلِ الْأَہْوَاء ِ لَا تَجُوز‘‘

ترجمہ: امام محمدروایت کرتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ اور امام ابو یوسف سے مروی ہے کہ بد مذہب کے پیچھے نماز جائز نہیں ہے ۔ (فتح القدیر، کتاب الصلوٰۃ،باب الامۃ،جلد1،صفحہ350،دارالفکر،بیروت)

کبیری میں ہے

’’ویکرہ تقدیم المبتدع ایضالانہ فاسق من حیث الاعتقاد وھواشد من الفسق من حیث العمل یعترف بانہ فاسق ویخاف ویستغفر بخلاف المبتدع والمراد بالمبتدع من یعتقد شیأً علی خلاف ما یعتقدہ اھل السنۃ والجماعۃ‘‘

ترجمہ:یونہی بدعتی کو امام بنانا بھی مکروہ ہے کیونکہ وہ اعتقاد کے لحاظ سے فاسق ہے اور ایسا آدمی عملی فاسق سے بدتر ہے کیونکہ عملی فاسق اپنے فسق کا اعتراف کرتا ہے اور ڈرتا ہے اور اﷲسے معافی کا خواست گار ہوتا ہے بخلاف بدعتی کے۔ بدعتی سے مراد وہ شخص ہے جو اہلسنت وجماعت کے عقائد کے خلاف کوئی دوسرا عقیدہ رکھتاہو۔(کبیری ،کتاب الصلوۃ،فصل فی الامامۃ،صفحہ 443،مکتبہ نعمانیہ ،کوئٹہ)

جس دین میں قبلہ کی طرف غلطی سے تھوکنے والے کو امامت سے روک دیا گیا ہو،حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس امام کا سر کاٹ دیا ہو جو سورۃ عبس و تولیٰ کی تلاوت کرتا تھا کہ اس میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوتنبیہ کی تھی چونکہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مرتبہ عالیہ کی تنقیص کے ارادے سے اس کی قراء ت کیا کرتا تھا۔ اس پاکیزہ دین میں بدمذہبوں ،گمراہوں کو امام بنانے کی ہرگز اجازت نہیں چاہیے وہ مکہ و مدینہ کی وہابی مولوی ہی کیوں نہ ہوں جو پوری دنیا کے مسلمانوں کو مشرک قرار دیتے ہیں اور حضور علیہ السلام کے والدین کریمین کو معاذ اللہ مشرک،یزیدکو حق پر اور امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو معاذ اللہ باغی ثابت کرتے ہیں۔مرزا انجینئر اور دیگر جاہل عوام کو تاریخ کا علم ہی نہیں اس لیے یہ اپنے گمان فاسد میں یہ سمجھتے ہیں کہ جو بھی مکہ و مدینہ کا مولوی ہوگا وہ ہمیشہ ٹھیک ہوگا۔یزید مکہ و مدینہ کا حاکم تھا تو کیا اسے بھی ٹھیک کہا جائے گا؟نیز پچھلے ادوار میں کئی ظالم و گمراہوں کی طرح شیعہ فرقہ کی بھی حکومت رہی ہے اور انہی کے مسلک کے لوگ امامت و خطابت کرتے رہے ہیں ۔وفاء الوفاء بأخبار دار المصطفی میں علی بن عبد اللہ السمہودی (المتوفی911ھ)لکھتے ہیں

’’ لأن الاستیلاء علی المسجد والمدینۃ کان فی ذلک الزمان للشیعۃ وکان القاضی والخطیب منہم، حتی ذکر ابن فرحون أن أہل السنۃ لم یکن أحد منہم یتظاہر بقراء ۃ کتب أہل السنۃ‘‘

یعنی اُس زمانہ میں مسجد نبوی اور مدینہ شریف پر رافضیوں کا قبضہ تھا ،قاضی اور مسجد نبوی کے امام و خطیب سب شیعہ ہی تھے۔ یہاں تک کہ ابن فرحون کا بیان ہے کہ کوئی شخص مدینہ منورہ میں اہل سنت و جماعت کی کتابوں کو اعلانیہ نہیں پڑھ سکتا تھا۔(وفاء الوفاء بأخبار دار المصطفی،الفصل السادس والعشرون ،حکمۃ اللہ فی الحریق،جلد2،صفحہ152، دار الکتب العلمیۃ،بیروت)

واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم

کتبـــــــــــــــــــــــــــہ

ابو احمد مفتی محمد انس رضا قادری

21ربیع الآخر 1445ھ06نومبر 2023ء

اپنا تبصرہ بھیجیں