کیا حالت غصہ میں طلاق واقع ہوتی ہے یانہیں؟

کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ کیا حالت غصہ میں طلاق واقع ہوتی ہے یانہیں؟

اور یہ جو عوام میں مشہور ہے کہ غصہ میں طلاق واقع نہیں یہ کہاں تک درست ہے؟ بینووا و توجروا

الجواب بعون الملک الوہاب ھدایۃ الحق والصواب

حالت غصہ میں طلاق واقع ہوجاتی ہے بلکہ طلاق عام طور پر غصہ میں ہی دی جاتی ہے کوئی کبھی خوشی سے طلاق نہیں دیتا.عوام جب طلاق دے دیتی ہے تو پھر بعد میں طلاق سے بچنے کےلئے حیلے بہانے تلاش کرتی ہے کہ کسی ذریعے کوئی بچت ہوجائے.

ہاں اگر کسی شخص کی شدت غصہ سے عقل ہی زائل ہوجائے اور اسے معلوم ہی  نہ ہو کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اور اس کی یہ حالت یا تو عادل گواہوں نے بتائی ہو یا اس کی یہ حالت مشہور و معروف ہے اور وہ دعوی کرے کہ اس وقت اس کی یہی حالت تھی تو قسم کے ساتھ اس کی بات مانی جائے گی ایسی صورت میں طلاق واقع نہیں ہوگی.

“فتاوٰی خیریہ” میں ہے:

قال لامرأتہ فی حال الغضب روحی طالق یقع واحدۃ رجعیۃ وان نوی الاکثراوالابانۃ او لم ینو شیئا لانہ صریح

خاوند نے بیوی کو غصہ میں کہا”میری روح طلاق والی ہے”تو ایک  طلاق رجعی ہوگی اگرچہ وُہ زیادہ طلاقوں کی یابائنہ کی نیت کرے یا کوئی نیت نہ کرے ہرطرح ایک رجعی ہوگی،کیونکہ یہ صریح ہے.

(فتاوٰی خیریہ کتاب الطلاق  ج 1 ص 54٬55دارالمعرفۃ بیروت )

“فتاوی رضویہ” میں اعلی حضرت امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ الرضوان اس قسم کے سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں :

غضب اگر واقعی اس درجہ شدّت ہوکہ حدّجنون تک پہنچا دے تو طلاق نہ ہوگی اور یہ کہ غضب اس شدت پر تھا،یا تو گواہانِ عادل سے ثابت ہو یا وہ اس کا دعوٰی کرے اور اس کی یہ عادت معہود معروف ہو تو قسم کےساتھ اس کا قول مان لیں گے ورنہ مجرد(صرف) دعوٰی معتبر نہیں،یوں تو ہر شخص اس کا ادعا(دوعوی)کرے اور غصّہ کی طلاق واقع ہی نہ ہو. حالانکہ غالبًا(اکثر طور پر) طلاق نہیں ہوتی مگر بحالتِ غضب

(فتاوی رضویہ ج12 باب الکنایہ ص 379 مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)

“فتاوی رضویہ”میں دوسری جگہ اعلی حضرت امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ الرضوان فرماتے ہیں:

غصّہ مانع وقوعِ طلاق نہیں بلکہ اکثر وہی طلاق پر حامل ہوتا ہے،تو اسے مانع قرار دینا گویا حکمِ طلاق کا راسًا(اصلاً) ابطال ہے،ہاں اگر شدّتِ غیظ وجوشِ غضب اس حدکو پہنچ جائے کہ اس سے عقل زائل ہوجائے،خبر نہ رہے کیا کہتا ہوں زبان سے کیا نکلتا ہے،توبےشک ایسی حالت کی طلاق ہرگز واقع نہ ہوگی.

(فتاوی رضویہ کتاب الطلاق ج12 ص 383 مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)

بہار شریعت”میں ہے:

اگر غصہ اس حد کا ہو کہ عقل جاتی رہے تو واقع نہ ہوگی. آج کل اکثر لوگ طلاق دے بیٹھتے ہیں بعد کو افسوس کرتے اور طرح طرح کے حیلہ سے یہ فتویٰ لیا چاہتے ہیں کہ طلاق واقع نہ ہو۔ ایک عذر اکثر یہ بھی ہوتا ہے کہ غصہ میں طلاق دی تھی۔ مفتی کو چاہیے یہ امر ملحوظ رکھے کہ مطلقاً غصہ کا اعتبار نہیں.معمولی غصہ میں طلاق ہو جاتی ہے۔ وہ صورت کہ عقل غصہ سے جاتی رہے بہت نادر ہے(بہار شریعت حصہ8 ٬طلاق کا بیان ٬ص 115مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)

“فتاوی فیض الرسول” میں اسی طرح کا جواب دیتے ہوئے فقیہ ملت علامہ مفتی جلال الدین احمد امجدی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:

غصہ میں بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے بلکہ اکثر طلاق غصہ ہی میں دی جاتی ہے خوشی میں نہیں دی جاتی.البتہ اگر شدت غیظ اور جوش غضب اس حد کو پہنچ جائے کہ اس سے عقل زائل ہوجائے خبر ہی نہ رہے کہ کہ زبان سے کیا کہتا ہوں اور کیا نکلتا ہے تو بےشک یہ صورت ضرور مانع طلاق ہے مگر اس طرح کا غصہ بہت نادر ہے لہذا شخص مذکور اگر اس حالت کو نہیں پہنچاتھا تو صرف غصہ ہونا اسے مفید نہیں طلاق واقع ہوجائے گی.

(فتاوی فیض الرسول کتاب الطلاق ج 2 ص 179 مطبوعہ شبیر برادرز لاہور)

“فتاوی مصطفویہ”میں ہے

طلاق غصہ ہی میں دی جاتی ہے معمولی(غصہ)طلاق نہ ہونے کاسبب کیونکر ہوسکتا ہے.

ہاں اگر ثابت ہوجائے کہ غصہ اسے اس وقت مجنون بنائے ہوئے تھا جوش غضب اس درجہ تھا جس سے عقل میں خلل ہوگیا توطاس صورت میں حکمِ طلاق نہ ہوگا.

اللہ عزوجل سے کوئی بات چھپی نہیں اگر جھوٹا ثبوت جوش تاحد جنون کا پہنچا کر عورت کو اپنے قبضے رکھے گا تو اِس سے حرام اُس کے لئے حلال نہ ہوجائے گا. وہ حرام حرام ہی رہے گااور اس جھوٹ فریب مکاری کا اس پر اور وبال عظیم ہوگا.

(فتاوی مصطفویہ کتاب الطلاق ص 369 مطبوعہ شبیر برادرز لاہور)

واللہ تعالی اعلم بالصواب والیہ المرجع والمآب

مجیب :عبدہ المذنب ابو معاویہ زاہد بشیر عطاری مدنی

اپنا تبصرہ بھیجیں