کرسی پر نماز پڑھنا کیسا ہے ؟

 کرسی پر نماز پڑھنا کیسا ہے ۔۔؟

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

  جو شخص کھڑے ہونے کی طاقت نہیں رکھتا لیکن زمین پر بیٹھ کر زمین پر سجدہ کرسکتا ہے اس کا کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنا جائز نہیں اور جو زمین پر سجدہ نہیں کرسکتا وہ شخص کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھ سکتا ہے۔ اس کی تفصیل بالترتیب مندرجہ ذیل ہے

   فرائض وواجبات اور سنّتِ فجر میں  قیام فرض ہے۔ ان نمازوں  کو اگر بلاعذرِ شرعی بیٹھ کر پڑھیں  گے تو ادا نہ ہوں  گی اور اگر خود کھڑے ہوکر نہیں  پڑھ سکتے مگر عصایا دیوار یا آدمی کے سہارے کھڑا ہونا ممکن ہو تو جتنی دیر اس طرح سہارے سے کھڑا ہوسکتا ہے اتنی دیر کھڑا ہونا فرض ہے، یہاں  تک کے صرف تکبیر ِتحریمہ کھڑے ہوکر کہہ سکتا ہے تو اتنا ہی قیام فرض ہے اور اگر اس کی بھی اِستطاعت نہ ہو یعنی نہ خود کھڑا ہوسکتا ہے اور نہ ہی کسی چیز سے ٹیک لگا کر کھڑا ہوسکتا ہے اگرچہ کچھ دیر کے لئے ہی سہی تو بیٹھ کر نماز پڑھ سکتا ہے۔ یونہی کھڑے ہونے میں  پیشاب کا قطرہ آتا ہے یا چوتھائی سَتْر ُکھلتا ہے یا بیماری وغیرہ کی وجہ سے ایسا لاغر و کمزور ہوچکا ہے کہ کھڑا تو ہوجائے گا مگر قراء ت نہ کر پائے گا تو قیام ساقط ہوجائے گا۔مگر اس بات کا خیال رہے کہ ُسستی و کاہلی اور معمولی دِقَّت کو مجبوری بنانے سے قیام ساقط نہیں  ہوتا بلکہ اس بات کاگمان غالب ہو کہ قیام کرنے سے مرض میں  زیادتی ہوجائے گی یا دیر میں  اچھا ہو گا یا ناقابلِ برداشت تکلیف ہو گی تو بیٹھ کر پڑھنے کی اجازت ملتی ہے۔

          اس فرضیت ِقیام کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگالیجئے کہ جماعت سے نماز پڑھنے کے لئے جائے گا تو قیام نہ کرسکے گا، گھر میں  پڑھے تو قیام کے ساتھ پڑھ سکتا ہے تو شرعاً حکم یہ ہے کہ گھر میں  قیام کے ساتھ نماز پڑھے، اگر گھر میں  جماعت میسر آجائے تو فَبِہَا ورنہ تنہا ہی قیام کے ساتھ گھر میں  پڑھنے کا حکم ہے۔

الغرض سچی مجبوریوں  کی بناء پر قیام ساقط ہوتا ہے، اپنی مَن گھڑت بنائی ہوئی نام کی مجبوریوں  کا شرعاً کسی قسم کا کوئی لحاظ نہیں  ہوتا

      چنانچہ بخاری شریف میں  ہے: عن عمران بن حصین رضی اللہ عنہ قال کانت بی بواسیر فسألت النبی صلی اللہ علیہ وسلم عن الصلاۃ فقال صل قائمًا فإن لم تستطع فقاعدًا فإن لم تستطع فعلی جنب یعنی حضرت عمران بن حُصَین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، فرماتے ہیں  کہ مجھے بواسیر کی بیماری تھی تو میں  نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ    سے  (اس مرض میں )   نماز کے متعلق سوال کیا تو آپ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ    نے فرمایا: کھڑے ہو کر نماز پڑھو، اگرتمہیں  اس کی طاقت نہ ہو تو بیٹھ کر اور اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو کروٹ کے بل لیٹ کر پڑھو۔

          کنز الدقائق میں  ہے:  ’’ تعذر علیہ القیام أو خاف زیادۃ المرض صلی قاعدًا یرکع ویسجد ومومیًا ان تعذر وجعل سجودہ اخفض ولا یرفع الی وجھہ شیئًا یسجد علیہ فان فعل وھو یخفض رأسہ صح والا لا ‘‘  یعنی  (مریض)   پر اگر قیام کرنا مُتَعَذَّر ہو یا اسے قیام کرنے کی صورت میں  مرض بڑھ جانے کا خوف ہو تو بیٹھ کر رکوع و سجود کے ساتھ نماز ادا کرے، اور اگرحقیقتاً رکوع و سجود بھی متعذر ہوں  تو اشارے سے نماز پڑھے اور سجدہ کا اشارہ رکوع کی بنسبت پست کرے، اور کوئی چیزپیشانی کے قریب اُٹھا کر اس پر سجد ہ کرنے کی اجازت نہیں  لیکن اگر کوئی چیز اُٹھاکر اس پر سجدہ کرلیتا ہے تو اگر سجدہ میں  بنسبت رکوع کے زیادہ سرجھکایا تو نماز ہوگئی ورنہ نہیں  ہوگی۔

           منیہ کی شرح حلبی کبیر میں  عُمْدَۃُ الْمَحَقِّقِین علاّمہ فہامہ ابراہیم حلبی عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ فرماتے ہیں :  (والثانیۃ)   من الفرائض  (القیام ولو صلی الفریضۃ قاعدًا مع القدرۃ علی القیام لا تجوز)   صلٰوتہ بخلاف النافلۃ علی ما یاتی ان شاء اللہ تعالٰی  (وان عجز المریض عن القیام)   عجزًا حقیقیًا او حکمیًا کما اذا قدر حقیقۃً لکن یخاف بسببہ زیادۃ مرض او بطؤ برء او یجد المًا شدیدًا  (یصلی قاعدًا یرکع و یسجد)   لحدیث عمران بن حصین اخرجہ الجماعۃ الا مسلمًا قال کانت بی بواسیر فسألت النبی صلی اللہ  علیہ وسلم عن الصلٰوۃ فقال صل قائمًا فان لم تستطع فقاعدًا فان لم تستطع فعلی جنب زاد النسائی فان لم تستطع فمستلقیا لایکلف اللہ نفسًا الا وسعہا اما اذا کان یقدر علی القیام لکن یلحقہ نوع مشقۃ من غیر الم شدید ولا خوفازدیاد مرض او بطؤ برء فلا یجوز لہ ترک القیام ولو قدر علیہ متکئًا علی عصا او خادم قال الحلوانی الصحیح انہ یلزمہ القیام متکئًا ولو قدر علی بعض القیام لا کلہ لزمہ ذلک القدر حتی لو کان لا یقدر الا علی قدر التحریمۃ لزمہ ان یتحرم قائمًا ثم یقعد  (فان لم یستطع الرکوع والسجود)   قاعدًا ایضًا  (اومی براسہ)   لھما ایماء  (وجعل السجود اخفض من الرکوع و لا یرفع الی وجھہ شیئًا یسجد علیہ)   من وسادۃ او غیرھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  (وان قدر)   المریض  (علی القیام دون الرکوع و السجود)   ای کان بحیث لو قام لایقدر ان یرکع ویسجد  (لم یلزمہ القیام عندنا)   بل یجوز ان یومی قاعدًا وھو افضل خلافًا لزفر والثلاثۃ۔۔۔۔۔  (و ذکر فی الذخیرۃ)   انہ  (اذا قدر علی القیام والرکوع دون السجود)   یعنی یقدر ان یقوم واذا قام یقدر ان یرکع ولکن لا یقدر ان یسجد  (لم یلزمہ القیام وعلیہ ان یصلی قاعدًا بالایماء)   فقولہ لم یلزمہ

القیام یفھم منہ انہ یجوز لہ الایماء فی کل من القیام و القعود وقولہ وعلیہ ان یصلی قاعدًا یفھم منہ ان القعود لازم وانہ لا یجوز الایماء قائمًا  (و)   لکن  (اکثرالمشایخ علی انہ)   لایجب علیہ الایماء قاعدًا بل  (یخیر ان شاء صلی قائمًا بالایماء وان شاء صلی قاعدًا بالایماء)   لکن الایماء قاعدًا افضل لقربہ من السجود

یعنی فرائضِ نماز میں  سے  (دوسرا فرض قیام ہے، اگر کوئی شخص قیام پر قدرت رکھنے کے باوجود بیٹھ کر فرض نماز ادا کرے گا تو )  اس کی وہ نماز  (درست نہیں  ہوگی)   بخلاف نفل کے، اس کی تفصیل اِنْ شَآءَ اللہ آگے (اس کے مقام پر)   مذکور ہوگی۔ (اگر مریض قیام کرنے سے عاجز ہو)  ، چا ہے وہ عجز حقیقی ہو یا حکمی مثلاً: فی نَفْسِہٖ قیام پر قادر تو ہے مگر قیام کی وجہ سے مرض بڑھ جانے یا دیر سے صحت یاب ہونے کا خوف ہو، یا قیام کی وجہ سے شدید درد محسوس ہوتا ہو تو ان صورتوں  میں   (بیٹھ کر رکوع و سجود کے ساتھ نماز ادا کرے گا)  ، اس کی دلیل حضرت عمران بن حُصَین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی روایت ہے کہ جسے امام مسلم کے علاوہ محدثین کی جماعت نے روایت کیا کہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  کہ مجھے بواسیر کی بیماری تھی تو میں  نے حضورِ اقدس  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ    سے نماز کے متعلق سوال کیا تو آپ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ    نے ارشاد فرمایا:  ’’ کھڑے ہو کر نماز پڑھو، اگر اس کی اِستطاعت نہ ہو تو بیٹھ کر اور اگر اس کی بھی اِستطاعت نہ ہو تو کروٹ کے بل لیٹ کر نماز پڑھو، نسائی شریف کی روایت میں  مزید اس بات کا بھی اضافہ ہے کہ اور اگر اس کی بھی اِستطاعت نہ ہو تو چت لیٹ کر نماز پڑھو، اللہ تعالیٰ کسی جان پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں  ڈالتا۔ ‘‘  البتہ اگر قیام پر قادر بھی ہواور تھوڑی بہت مشقت اسے ہوتی ہے مگر قیام کی وجہ سے اسے درد شدید نہیں  ہوگا اور نہ ہی مرض بڑھنے یا دیر سے شفایاب ہونے کا خوف ہے تو  (اس معمولی سی تکلیف کی وجہ سے)   قیام ترک کرنے کی اجازت نہیں  ہوگی بلکہ عصا یا خادم پر ٹیک لگا کر قیام کرسکتا ہو تو امام حَلْوانی عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ فرماتے ہیں  کہ صحیح قول کے مطابق اس شخص پر ٹیک لگا کر قیام کرنا لازم ہے، اور اگر کچھ دیر کھڑا ہوسکتا ہے تو اسی قدر قیام لازم ہے حتّٰی کہ اگر صرف تکبیر ِتحریمہ کھڑے ہوکر کہہ سکتا ہے تو اتنا ہی لازم ہے کہ کھڑے ہوکر تکبیر ِتحریمہ کہے پھر بیٹھ جائے۔  (اور اگر مریض رکوع وسجود پر بھی قادر نہ ہو تو)   بیٹھ کر  (اشارے سے نماز پڑھے اورسجدہ کا اشارہ رکوع کی بنسبت زیادہ پست کرے اور سجدہ کے لئے پیشانی کی طرف)   تکیہ وغیرہ  (کوئی چیز نہ اُٹھائے)  ۔۔۔۔۔ اور مریض  (اگرکھڑا ہوسکتا ہے مگر رکوع و سجود نہیں  کرسکتا تو ہمارے نزدیک اس پر قیام لازم نہیں )  ، وہ بیٹھ کر اشارے سے نماز پڑھ سکتا ہے بلکہ یہی اس کے لئے افضل ہے برخلاف امام زُفَر اور اَئِمَّۂ ثَلَاثہ کے۔۔۔۔۔  (ذخیرہ میں  مذکور ہے کہ جو شخص قیام و رکوع پر قادر ہو مگر سجدہ پر قدرت نہ رکھتا ہو تو اس پر قیام لازم نہیں ہے، اس پر لازم ہے کہ بیٹھ کر اشارے سے نماز ادا کرے)  ، اھ۔ صاحب ِذخیرہ کے فرمان  ’’ لم یلزمہ القیام ‘‘  سے یہ سمجھ میں  آتا ہے کہ اسے دونوں  صورتوں  کی اجازت ہے کہ کھڑے ہو کر اشارے سے نماز پڑھے یا بیٹھ کر بہر صورت جائز ہے لیکن آگے ذکر کردہ عبارت  ’’ علیہ ان یصلی قاعدًا ‘‘  سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس پر قعود لازم ہے، کھڑے ہو کر اشارے سے ادا کرنے کی اجازت نہیں ، لیکن  (اکثر مشائخ کا مذہب یہ ہے کہ)   اس پربیٹھ کر نماز ادا کرنا واجب نہیں  ہے  (اسے اختیار ہے کہ کھڑے ہو کر اشارے سے نماز ادا کرے یا بیٹھ کر)   البتہ بیٹھ کر ادا کرنا افضل ہے کہ یہ سجدہ کی حالت سے زیادہ قریب ہے

از: حلبی کبیر، ص۲۶۱۔۲۶۶، ملتقطًا

اور رکوع وسجود دونوں پر قدرت نہ ہو یا صرف سجدے پر قادر نہ ہو تو اگرچہ کھڑا ہوسکتا ہواس سے اصلاً قیام ساقط ہوجاتا ہے۔

اس صورت میں  چونکہ بیٹھ کر پڑھنے کی رخصت ملنے کا اصل سبب رکوع وسجود پر قادر نہ ہونا ہے اس لئے رکوع و سجود کا اشارہ کرنا ہوگا اور سجدے کے اشارہ میں  رکوع سے زیادہ سر جھکانا ضروری ہے، اس بات کا بھی خیال رکھا جائے ورنہ نماز نہ ہوگی۔

کرسی پر بیٹھنے والا پورا قیام یا کچھ قیام صف سے آگے نکل کر کرے تو اس کا حکم

           ممکنہ دو صورتیں  بنتی ہیں :  صف کی سیدھ میں  کرسی ہونے کی وجہ سے وہ خود صف سے آگے جداہوکرکھڑاہوگا جیسا کہ عام طور پر لوگ کھڑے ہوتے ہیں  یاپھرکرسی صف سے پیچھے کرکے خودصف کی سیدھ میں  کھڑاہوگا توبیٹھنے کی صورت میں  صف سے جداہوگا اور اس کی کرسی کی وجہ سے پچھلی صف بھی خراب ہوگی۔

           لہٰذا دونوں  صورتوں  میں  صف بندی میں  خلل کی مکروہ صورت کا ارتکاب لازم آئے گا جبکہ صف کی درستگی کی احادیث میں  بہت تاکیدآئی ہے کہ صف برابر ہو، مقتدی آگے پیچھے نہ ہوں ، سب کی گردنیں ، کندھے، ٹخنے آپس میں  محاذی یعنی ایک سیدھ میں  ہوں۔

          اب کرسی پر بیٹھنے والوں  کا جائزہ لیا جائے توجوشخص زمین پرسجدہ کرنے پرقادرنہیں  اگر وہ مجبوراً کرسی پر نماز جماعت کے ساتھ پڑھے تو اسے کرسی پر بیٹھ کراشاروں  سے نمازپڑھنی چاہئے تاکہ کھڑے ہونے کی صورت میں صف بندی میں  خلل نہ آئے اور کراہت کا مرتکب نہ ہو۔ اور ہوسکے تو بغیر کرسی کے نماز پڑھے کہ اس صورت میں  قیام کرنے اور پھر بیٹھ جانے دونوں  صورتوں  میں  صف بندی میں  خلل نہیں  آتا۔

          اور جو سجدہ پر قادر ہے پورے قیام پر قادر نہیں  بعض پر قادر ہے اس کے لئے چونکہ ضروری ہے کہ جتنے پر قادر ہے اتنا قیام کرے یہاں  تک کے تکبیرِ تحریمہ کہہ سکتا ہو تو وہی کھڑے ہوکر کہے ورنہ اس کی نماز نہ ہوگی لہٰذا ایسے شخص کے لئے جماعت کے ساتھ کرسی پر بیٹھ کر نماز ادا کرنے میں  شرعاً کوئی مجبوری نہیں  ہوسکتی کہ جب سجدے پر وہ قادر ہے کچھ قیام بھی کرسکتا ہے تو قیام کے بعد اسے زمین ہی پر بیٹھنا ہوگا تو پھر کرسی کس کام کی ہے

          کرسی کے آگے سجدے کیلئے ٹیبل نما تختی جو لگی ہوتی ہے کرسی پر بیٹھنے والے اس پر سر جما کر سجدہ کرلیتے ہیں  ان کا یہ طریقہ درست نہیں  کیونکہ یہ حقیقتاً سجدہ نہیں  بلکہ سجدے کا اشارہ ہے۔ اور اشارہ سر سے کرنا ہوتا ہے اس کے ساتھ کمر جھکانا ضروری نہیں ، رکوع کے اشارے میں  سر کو جھکائیں  اور سجدے کے اشارے میں  اس سے زیادہ جھکائیں ، تو کرسی کے ساتھ لگی تختی پر سر رکھنا بالکل غیر ضروری ہے اور عام طور پر وہ لوگ ایسا کرتے ہیں  جو مریض کی نماز پڑھنے کے ضروری مسائل سے واقف نہیں  ہوتے انہیں  نرمی کے ساتھ سمجھا دیاجائے کہ وہ ایسا نہ کریں۔

          اور حقیقتاً سجدہ جن پر کرنا ضروری ہوتا ہے ان کا اس تختی پر سر رکھنے کو کافی سمجھنا اعلیٰ درجے کی جہالت ہے، ان کی نماز ہی نہیں  ہوتی ہے، کرسی کی تختی پر سر رکھنے سے حقیقتاً سجدہ ادا نہیں  ہوتا، جب سجدہ ادا نہیں  ہوتا تو نمازبھی نہیں  ہوتی، سجدہ زمین پر یا زمین پر رکھی ہوئی کسی ایسی چیز پر جس کی بلندی بارہ اُنگل سے زیادہ نہ ہو کیا جائے تو حقیقی سجدہ ادا ہوتا ہے، اس پر قادر نہ ہو تو قیام بھی اصلاً ساقط ہوجاتا ہے، رکوع و سجود کے اشارے کرنے ہوتے ہیں  جیسا کہ اس حوالے سے کافی تفصیل اوپر گزر چکی۔

          لہٰذا سجدہ کا اشارہ کرنے والوں  کا کرسی کی تختی پر سر رکھنا لغوو بے جا ہے مگر چونکہ اشارہ پایا گیا اس لئے ان کی نماز ہوجاتی ہے جبکہ حقیقی سجدہ پر قادر حضرات کا ایسا کرنا واضح طور پر ناجائز ہے، ان کی نمازیں  اس سے برباد ہوتی ہیں۔

          یاد رہے کہ جو مسئلہ حدیث شریف ا ور فقہی جُزئِیَّات میں  مذکور ہے کہ نمازی کا کوئی چیز اُٹھاکر سجدہ کرنا یا دوسرے کا اس کے لئے اُٹھانا مکروہ  تحریمی ہے اس کا کرسی کی تختی سے کوئی تعلق نہیں کہ وہ خود اس کے ہاتھ میں  یا کسی اور کے ہاتھ میں  اس کے لئے بلند نہیں  ہوتی بلکہ زمین پر رکھی کرسی کے ساتھ ہی لگی ہوتی ہے، اگر کوئی کرسی کی تختی پر سر رکھے گا تو اس بناء پر ا سے مکروہِ تحریمی قرار دینا درست نہیں  ہے۔

           چنانچہ  ’’ ملتقی الابحر ‘‘  میں  ہے:  ’’ ولا یرفع إلی وجھہ شیئًا للسجود۔ ‘‘  یعنی معذور شخص سجدہ کرنے کیلئے اپنے چہرے کی طرف کسی چیز کو بلند نہیں  کرے گا۔

           ملتقی الابحر مع شرحہ مجمع الانہر، ۱ / ۲۲۸۔

          اس کے تحت علامہ عبد الرحمن بن محمد کلیبولی عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ ایک روایت نقل کرتے ہیں :  ’’ أن النبی صلی اللہ علیہ وسلم عاد مریضًا فراٰہ یصلی علی و سادۃ فأخذھا فرمی بھا، وأخذ عودًا لیصلی علیہ فأخذہ فرمی بہ، وقال صل علی الأرض إن استطعت و إلا فأوم و اجعل سجودک أخفض من رکوعک۔ ‘‘  یعنی نبی کریم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   ایک بیمار شخص کی عیادت کےلئے گئے آپ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ    نے اسے دیکھا کہ وہ سامنے تکیہ رکھ کر نماز پڑھ رہاہے آپ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ    نے اس سے تکیہ لے کر پھینک دیا۔ اس نے ایک لکڑی لے لی۔ آپ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ    نے اس لکڑی کو بھی لے کر پھینک دیا اور ارشاد فرمایا کہ سجدہ زمین پر کرو اگر اِستطاعت ہے ورنہ اشارے سے پڑھو اور سجدہ کرنے میں  رکوع سے زیادہ جھکو۔

ملتقی الابحر مع شرحہ مجمع الانہر، ۱ / ۲۲۸۔

[2]    مجمع الانہر شرح ملتقی الابحر، ۱ / ۲۲۸

واللہ اعلم و رسولہ اعلم عزوجل صلی اللہ علیہ والہ وسلم

مجیب ۔؛ مولانا فرمان رضا مدنی

اپنا تبصرہ بھیجیں