مدخولہ عورت کو تین طلاقیں اکٹھی دی جائیں تو کیا تینوں ہی ہوجاتی ہیں؟

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین مسئلہ ذیل میں کہ مدخولہ عورت کو تین طلاقیں اکٹھی دی جائیں تو کیا تینوں ہی ہوجاتی ہیں؟ بینوا توجروا۔

 الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب۔

ایک وقت میں تین طلاقیں دینا گناہ ہے لیکن اگر کسی نے ایک مجلس میں اپنی مدخولہ عورت (یعنی وہ عورت نکاح کے بعد جس سے خلوت و صحبت ہوئی ہو) کو تین طلاقیں دے دیں، تو تینوں ہوجاتی ہیں اور بغیر حلالہ کے رجوع ممکن نہیں ہوتا۔

اللہ پاک نے قرآنِ پاک میں ارشاد فرمایا:

” فَاِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهٗ مِنْۢ بَعْدُ حَتّٰى تَنْكِحَ زَوْجًا غَیْرَهٗؕ “.

ترجمہ کنزالایمان: پھر اگر تیسری طلاق اسے دی تو اب وہ عورت اسے حلال نہ ہوگی جب تک دوسرے خاوند کے پاس نہ رہے۔

اس آیت کے تحت تفسیرِ صراط الجنان میں ہے:

تین طلاقوں کے بعد عورت شوہر پر حرمتِ غلیظہ کے ساتھ حرام ہو جاتی ہے، اب نہ اس سے رجوع ہوسکتا ہے اور نہ دوبارہ نکاح جب تک یہ نہ ہو کہ عورت عدت گزار کر کسی دوسرے مرد سے نکاح کرے اور وہ دوسرا شوہر صحبت کے بعد طلاق دے یا وہ فوت ہوجائے اور عورت پھر اس دوسرے شوہر کی عدت گزارے۔

احادیث مبارکہ سے بھی تین طلاقیں دینے پر تین طلاقیں واقع ہو جانے کا ثبوت ملتا ہے چنانچہ

قَالَ اللَّيْثُ: حَدَّثَنِي نَافِعٌ، قَالَ: كَانَ ابْنُ عُمَرَ، إِذَا سُئِلَ عَمَّنْ طَلَّقَ ثَلَاثًا، قَالَ: «لَوْ طَلَّقْتَ مَرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ، فَإِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَنِي بِهَذَا، فَإِنْ طَلَّقْتَهَا ثَلَاثًا حَرُمَتْ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَكَ»

ترجمہ: امام لیث کہتے ہیں مجھے حضرت نافع علیہ الرحمہ نے حدیث بیان کرتے ہوئے کہا ” جب ابن عمر رضی ﷲ عنھما سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جس نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دی تھیں تو آپ رضی ﷲ عنہ نے فرمایا اگر تو نے ایک یا دو طلاقیں دی ہوتی تو رجوع ہو سکتا تھا کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اسی کا حکم فرمایا تھا اور جبکہ تو نے تین طلاقیں دے دی ہیں تو تیری بیوی حرام ہو گئی جب تک کہ وہ تیرے علاوہ کسی سے نکاح نہ کرے ۔

(صحیح البخاری، جلد 07، صفحہ 43، مطبوعہ دار طوق النجاۃ)

عَنْ عَامِرٍ الشَّعْبِيِّ، قَالَ: قُلْتُ لِفَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ: حَدِّثِينِي عَنْ طَلَاقِكِ، قَالَتْ: «طَلَّقَنِي زَوْجِي ثَلَاثًا، وَهُوَ خَارِجٌ إِلَى الْيَمَنِ، فَأَجَازَ ذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ»۔

ترجمہ: حضرت عمر شعبی سے روایت ہے کہتے ہیں کہ میں نے فاطمہ بنت قیس سے عرض کی مجھے اپنی طلاق کے بارے میں بتائیے تو انہوں نے فرمایا ” مجھے میرے شوہر نے تین طلاقیں دے دیں اس حال میں کہ وہ یمن سے باہر تھے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو جائز قرار دیا۔

(سنن ابن ماجه، جلد 01، صفحه 652، مطبوعه دار احياء الكتب العربية )

عَنْ مَالِكٍ أَنَّهُ بَلَغَهُ، أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ إِنِّي طَلَّقْتُ امْرَأَتِي مِائَةَ تَطْلِيقَةٍ فَمَاذَا تَرَى عَلَيَّ؟ فَقَالَ لَهُ ابْنُ عَبَّاسٍ «طَلُقَتْ مِنْكَ لِثَلَاثٍ، وَسَبْعٌ وَتِسْعُونَ اتَّخَذْتَ بِهَا آيَاتِ اللَّهِ هُزُوًا»

روایت ہے حضرت مالک سے انہیں خبر پہنچی ہے کہ کسی شخص نے حضرت عبدﷲ ابن عباس رضی ﷲ عنہ سے کہا کہ میں نے اپنی بیوی کو سو طلاقیں دے دیں آپ مجھ پر کیا فتویٰ دیتے ہیں؟ تو حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ وہ تین طلاقوں سے تجھ سے مطلقہ ہوچکی اور ستانویں طلاقوں کے ذریعے تو نے اﷲ کی آیتوں کا مذاق اڑا لیا “.

(موطا امام مالك، جلد 02، صفحہ 550، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت-لبنان)

مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ رحمۃ اللہ القوی اس حدیثِ پاک کے تحت مرآۃ المناجیح میں فرماتے ہیں:

” اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایک دم تین طلاقیں تین ہی واقع ہوں گی اور اگر کوئی شخص ہزار یا لاکھ طلاقیں دے دیں تو تین تو واقع ہو جائیں گی باقی لغو جائیں گی یہ ہی علماء امت کا قول ہے اس پر تمام آئمہ متفق ہیں”.

(مرآۃ المناجیح جلد 05، صفحہ 133، مطبوعہ نعیمی کتب خانہ گجرات)

عَنْ وَاقِعِ بْنِ سَحْبَانَ، قَالَ: سُئِلَ عِمْرَانُ بْنُ حُصَيْنٍ، عَنْ رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا فِي مَجْلِسٍ، قَالَ: «أَثِمَ بِرَبِّهِ، وَحُرِّمَتْ عَلَيْهِ امْرَأَتُهُ» “.

واقع بن سحبان سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں: عمران بن حصین سے ایسے شخص کے بارے میں پوچھا گیا جس نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دی تھیں تو آپ نے فرمایا ” اس نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور اس کی بیوی اس پر حرام ہو گئی (یعنی طلاق واقع ہو گئی)۔

(مصنف ابن ابی شیبہ جلد 04، صفحہ 60، مطبوعہ  مکتبۃ الرشد – الریاض )

” نسائی شریف ” میں حدیث ہے ” حضرت محمود بن لبید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم رؤف الرّحیم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں ایک شخص کے بارے میں ذکر کیا گیا جس نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں اکٹھی دیدی تھیں تو نبی کریم رؤف الرّحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ انتہائی جلال میں کھڑے ہوگئے اور فرمایا کیا وہ شخص اللہ عَزَّوَجَلَّ کی کتاب کے ساتھ کھیلتا ہے حالانکہ میں ان کے درمیان موجود ہوں حتی کہ ایک آدمی نے کھڑے ہوکر کہا۔ یا رسول اﷲ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کیا میں اُسے قتل کردوں۔ (سنن نسائی شریف، جلد 06، صفحہ 142، مکتب المطبوعات الاسلامیۃ – حلب )

مجمع الانھر فی شرح ملتقی الابحر میں ہے: ” (وَبِدْعِيُّهُ) أَيْ بِدْعِيُّ الطَّلَاقِ عَدَدًا (تَطْلِيقُهَا ثَلَاثًا، أَوْ ثِنْتَيْنِ بِكَلِمَةٍ وَاحِدَةٍ) مِثْلُ أَنْ يَقُولَ أَنْتِ طَالِقٌ ثَلَاثًا، أَوْ ثِنْتَيْنِ وَهُوَ حَرَامٌ حُرْمَةً غَلِيظَةً وَكَانَ عَاصِيًا لَكِنْ إذَا فَعَلَ بَانَتْ مِنْهُ”۔

ترجمہ: اور طلاق میں عدد کے اعتبار سے بدعی یہ ہے کہ (عورت کو) تین طلاق دے یا دو طلاق دے مثال کے طور پر یہ کہے ” تجھے تین طلاقیں ہیں یا دو طلاقیں ہیں، یہ سخت حرام ہے اور (کرنے والا) گنہگار ہو گا لیکن جب کوئی ایسا کرے گا تو اس کی عورت اس جدا ہو جائے گی (یعنی طلاق واقع ہو جائے گی)۔

(مجمع الانھر فی شرح ملتقی الابحر جلد 01، صفحہ 382، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی)

” ہدایہ و مختصر القدوری ” میں ہے

” وطلاق البدعة أن يطلقها ثلاثا بكلمة واحدة أو ثلاثا في طهر واحد فإذا فعل ذلك وقع الطلاق وكان عاصيا “

ترجمہ: طلاقِ بدعت یہ ہے کہ مرد عورت کو ایک کلمے کے ساتھ تین طلاقیں دیں یا پھر ایک طھر میں تین طلاقیں دے، اگر کوئی ایسا کرے گا تو طلاق واقع ہو جائے گی مگر گنہگار ہو گا۔

( الھدایۃ في شرح البداية، جلد 01، صفحه 221، مطبوعه دار احياء التراث العربي -بیروت- لبنان اختصاراً )

بہار شریعت میں ہے: ” بدعی یہ کہ ایک طہر میں دو یا تین طلاق دیدے، تین دفعہ میں یا دو دفعہ یا ایک ہی دفعہ میں خواہ تین بار لفظ کہے یا یوں کہہ دیا کہ تجھے تین طلاقیں یا ایک ہی طلاق دی مگر اُس طہر میں وطی کرچکا ہے یا موطؤہ کو حیض میں طلاق دی یا طہر ہی میں طلاق دی مگر اُس سے پہلے جو حیض آیا تھا اُس میں وطی کی تھی یا اُس حیض میں طلاق دی تھی یا یہ سب باتیں نہیں مگر طہر میں طلاق بائن دی۔

(بہار شریعت جلد 02، کتاب الطلاق، صفحہ 110-111، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی مختصراً )

واللہ اعلم عزوجل و رسولہ الکریم اعلم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

                 کتبہ

سگِ عطار محمد رئیس عطاری بن فلک شیر غفرلہ

اپنا تبصرہ بھیجیں