مارکیٹنگ کی نوکری جائز نہیں

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین مسئلہ ذیل میں کہ آج کل جو مارکیٹنگ کی نوکریاں چل رہی ہیں کہ جس کسٹمر کو آپ لائیں گے اس میں سے کمیشن ملے گی اور وہ آگے سے جو کسٹمر لائے گا اسے بھی اور پہلے والے کو بھی کمیشن ملے گی یہ طریقہ کیا جائز ہے؟  بینوا توجروا۔

جواب: الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب۔

مارکیٹنگ کی نوکری جائز نہیں کہ اس میں کئی خرابیاں ہوتی ہیں۔ جیسے ممبر بننے کے لیے یہ شرط ہوتی ہے کہ پہلے ہم سے چیز خریدیں پھر ممبر بنائیں گے تو یہ فاسد شرط ہے جوکہ شرعا جائز نہیں اور  اس سے اجارہ فاسد ہو جاتا ہے۔ ناجائز ہونے کی ایک اور وجہ کمیشن دینے کا طریقہ کار ہے کہ یہ اجارہ کے فقہی قوانین کے خلاف ہے کیونکہ اسلامی اصولوں کے مطابق کمیشن ایجنٹ اس وقت کمیشن یا اجرت کا مستحق ہوتا ہے جب وہ گاہک لانے میں ایسی محنت و مشقت کرے جو عند الشرع معتبر ہو مثال کے طور پر زید نے بکر اور عمر دو شخصوں کو چیز خریدنے کے لئے تیار کیا اور پھر چیز کی خریداری کے وقت زید بکر کے ساتھ خود چل کر دوکاندار تک گیا لیکن جب عمر نے خریداری کرنی تھی تو اس کے ساتھ چل کر نہیں گیا تو شریعت کی نظر میں زید ، بکر کی کمیشن تو لے سکتا ہے لیکن عمر کی نہیں لے سکتا۔زید کو عمر کو زبانی کلامی طریقہ کار بتادینا اجرت لینے کے لیے کافی نہیں ۔لہذا مارکیٹنگ کی نوکریوں میں جو چین سسٹم چلتا ہے یہ جائز نہیں۔  

حضرت عمرو بن شعیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں ’’ أن النبی صلی اللہ علیہ وسلم نہی عن بیع و شرط ‘‘ترجمہ: نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے خریداری اور شرط سے منع فرمایا ہے۔( المعجم الاوسط للطبرانی، باب العین، من اسمہ عبد اللہ، جلد 04، صفحہ 335، مطبوعہ دار الحرمین، قاہرہ)۔

 فتاوی عالمگیری میں ہے ’’ولو قال أبیعک ھذا بثلثمائۃ علی أن یخدمنی سنۃ کان فاسدا لأن ھذا بیع شرط فیہ الإجارۃ ‘‘ مختصراً“ترجمہ:اگر کسی نے کہا میں نے یہ ( غلام ) تجھے تین سو کے بدلے اس شرط پر فروخت کیا کہ یہ ایک سال تک میری خدمت کرے گا تو یہ بیع فاسد ہے کیونکہ یہ ایسی بیع ہے جس میں اجارہ کی شرط لگائی ہے۔(فتاویٰ عالمگیری،کتاب البیوع، الباب العاشر، جلد 03، صفحہ 135، مطبوعہ دار الفکر ، بیروت)۔

ردالمحتار میں ہے: ’’ الدلالة والإشارة ليست بعمل يستحق به الأجر، وإن قال على سبيل الخصوص بأن قال لرجل بعينه: إن دللتني على كذا فلك كذا إن مشى له فدله فله أجر المثل للمشي لأجله؛ لأن ذلك عمل يستحق بعقد الإجارة ‘‘ترجمہ: محض بتانا اور اشارہ کرنا ایسا عمل نہیں ہے جس پر وہ اجرت کا مستحق ہو، اگر کسی نے ایک خاص شخص کو کہا اگر تو مجھے فلاں چیز پر رہنمائی کرے تو اتنا اجر دوں گا، اگر وہ شخص چل کر رہنمائی کرے تو وہ اس چل کر جانے کی وجہ سے اجرتِ مثل کا مستحق ہوگا کیونکہ چلنا ایسا عمل ہے جس پر عقد اجارہ میں اُجرت کا مستحق ہوتا ہے۔ (ردالمحتار، کتاب الاجارۃ، مطلب ضل لہ شیئ،  جلد 06، صفحہ 95، مطبوعہ دارالفکر، بیروت )

 امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں: ’’ اگر کارندہ نے اس بارہ میں جو محنت و کوشش کی وہ اپنے آقا کی طرف سے تھی، بائع کے لئے کوئی دوا دوش نہ کی، اگرچہ بعض زبانی باتیں اس کی طرف سے بھی کی ہوں، مثلا آقا کو مشورہ دیا کہ یہ چیز اچھی ہے، خرید لینی چاہیے یا اس میں آپ کا نقصان نہیں اور مجھے اتنے روپے مل جائینگے ، اس نے خرید لی جب تو یہ شخص عمرو بائع سے کسی اجرت کا مستحق نہیں کہ اجرت آنے جانے ، محنت کرنے کی ہوتی ہے، نہ بیٹھے بیٹھے دو چار باتیں کہنے، صلاح بتانے، مشورہ دینے کی “. (فتاوی رضویہ ،جلد 17، صفحہ 453، مطبوعہ رضا فائونڈیشن، لاہور)۔

واللہ اعلم عزوجل و رسولہ الکریم اعلم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

                         کتبہ

سگِ عطار محمد رئیس عطاری بن فلک شیر غفرلہ

اپنا تبصرہ بھیجیں