عورت شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر نہیں جا سکتی

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین مسئلہ ذیل میں کہ شوہر اگر بیوی کو اس کے ماں باپ اور دیگر رشتہ داروں کے گھر جانے کی اجازت نہ دے تو کیا بیوی بغیر اجازت جاسکتی ہے؟ بینوا توجروا۔

 الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب۔

عورت شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر نہیں جا سکتی اگر ایسا کرے گی تو جب تک توبہ نہ کرے اللہ  ( عزوجل ) اور فرشے اس پر لعنت کرتے ہیں۔ اور اگر وہ جائے تو اس مدت کا نفقہ ( خرچ دینا ) بھی شوہر پر لازم نہیں ہے۔ ہاں عورت اپنے والدین کے یہاں ہر ہفتہ میں ایک بار اور دیگر محارم کے یہاں سال میں ایک بار بغیر اجازت جا سکتی ہے، مگر رات میں بغیر اجازتِ شوہر وہاں نہیں رہ سکتی، دن ہی دن میں واپس آ جائے۔

یاد رہے کہ والدین اور بہن بھائیوں سے ملنا صلہ رحمی ہے جو کہ واجب ہے اور ملنے سے روکنا قطع رحمی ( یعنی تعلق توڑنا ) ہے جو کہ حرام ہے، قرآن و حدیث میں صلہ رحمی کرنے کا حکم اور بلاوجہ شرعی قطعِ تعلقی کرنے والے کے لئے وعیدیں آئی ہیں، لہذا شوہر کا بلاوجہ شرعی بیوی کو اس کے والدین اور بہن بھائیوں سے ملنے کو روکنا قطعِ رحمی ہونے کی وجہ سے جائز نہیں اور ناجائز امور میں کسی کی فرمانبرادری جائز نہیں۔

کنزالعمال میں ہے: ” حق الزوج علی الزوجۃ أن لا تمنعہ نفسھا و اِن کانت علی ظھر قتب، و ان لا تصوم یوماً واحداً الا باذنہ الا الفریضۃ، فان فعلت اثمت ولا یتقبل منھا شیء الا باذنہ، فان فعلت کان لہ الاجر و کان علیھا الوزر، و ان لا تخرج من بیتہ الا باذنہ، فان فعلت لعنھا اللہ و ملائکۃ الغضب حتی تتوب او تراجع، قیل: وان کان ظالماً؟ قال: وان کان ظالماً “۔ ( ط، ق، وابن عساکر – عن ابن عمر ).

ترجمہ: ابو داود و طیالسی و ابن عساکر ابن عمر رضی اللہ  تعالٰی عنہما سے راویت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا کہ:  ’’ شوہر کا حق عورت پر یہ ہے کہ اپنے نفس کو اس سے نہ روکے اگرچہ اونٹ کی پیٹھ پر ہو اور سوا فرض کے کسی دن بغیر اس کی اجازت کے روزہ نہ رکھے اگر ایسا کیا ( یعنی بغیر اجازت روزہ رکھ لیا ) تو گنہگار ہوئی اور بغیر اجازت اس کا کوئی عمل مقبول نہیں اگر عورت نے کر لیا تو شوہر کو ثواب ہے اور عورت پر گناہ، اور بغیر اجازت اس کے گھر سے نہ جائے، اگر ایسا کیا تو جب تک توبہ نہ کرے اللہ ( عزوجل ) اور فرشے اس پر لعنت کرتے ہیں۔ عرض کی گئی اگرچہ شوہر ظالم ہو۔ فرمایا: اگرچہ ظالم ہو۔‘‘  ( کنزالعمال،کتاب النکاح، جلد  16، صفحہ 144، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت )۔

عن تميم الداري، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «حق الزوج على الزوجة، أن لا تهجر فراشه، وأن تبر قسمه، وأن تطيع أمره، وأن لا تخرج إلا بإذنه، وأن لا تدخل عليه من يكره»

حضرت سیدنا تمیم داری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راویت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ عورت پر شوہر کا حق یہ ہے کہ اس کے بچھونے کو نہ چھوڑے اور اسکی  قسم کو سچا کرے اور بغیر اس کی  اجازت کے باہر نہ جائے اور ایسے شخص کو مکان میں آنے نہ دے جس کا آنا شوہر کو پسند نہ ہو۔‘‘ ( المعجم الکبیر، باب التاء، جلد 02، صفحہ 52، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی- بیروت-لبنان )۔

اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے ”﴿ وَ اِذْ اَخَذْنَا مِیۡثَاقَ بَنِیۡۤ اِسْرٰٓءِیۡلَ لَا تَعْبُدُوۡنَ اِلَّا اللہَ ۟ وَبِالْوٰلِدَیۡنِ اِحْسٰنًا وَّذِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیۡنِ وَقُوۡلُوۡا لِلنَّاسِ حُسْنًا وَّاَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ ؕ ثُمَّ تَوَلَّیۡتُمْ اِلَّا قَلِیۡلًا مِّنۡکُمْ وَاَنۡتُمۡ مُّعْرِضُوۡنَ﴿۸۳﴾﴾۔

 ترجمہ کنزالایمان: اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ اللّٰہ کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں سے اور لوگوں سے اچھی بات کہو  اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دو پھر تم پھِر گئے مگر تم میں کے تھوڑے اور تم رو گردان ہو۔

 (پارہ 02، سورۃ البقرہ، آیت 83 )۔

صحیح مسلم میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہے: ” ان رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم قال من احب ان یبسط لہ فی رزقہ وینسأ لہ فی اثرہ فلیصل رحمہ“۔

ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جسے یہ پسند ہو کہ اس کے رزق میں وسعت ہو اور اس کی عمر دراز ہو تو اسے چاہیے کہ صلہ رحمی کرے ۔

(صحیح مسلم ،کتاب البر و الصلۃ، جلد 02، صفحہ 315، مطبوعہ قدیمی کتب خانہ، کراچی) ۔

فتاوی شامی میں ہے: ” ولیس لها أن تخرج بلا إذنه أصلًا “ یعنی عورت کے لئے شوہر کی اجازت کے بغیر نکلنا جائز نہیں ہے۔( رد المحتار علی الدر المختار، جلد 03، صفحہ 146، مطبوعہ  دار الفکر بیروت ).

” لا نفقة لأحد عشر … وخارجة من بیته بغیر حق و هي الناشزة حتی تعود”.

ترجمہ: گیارہ چیزوں کی وجہ سے شوہر پر عورت کے لئے کوئی نفقہ ( خرچ ) نہیں۔۔۔ عورت شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے نکلے،  تو یہ نافرمان ہے یہاں تک کہ لوٹ آئے۔

 (ردالمحتار علی الدر المختار، جلد 03، صفحہ 575، 576، مطبوعہ دار الفکر بیروت).

خلیفہ اعلی حضرت مولانامحمد امجد علی اعظمی فرماتے ہیں :” جب مہر وصول کر لیا تو اب بلا اجازت نہیں جا سکتی۔ مگر صرف ماں باپ کی ملاقات کو ہر ہفتہ میں ایک بار دن بھر کے لئے جا سکتی ہے ۔ اور محارم کے یہاں سال بھر میں ایک بار۔“

(بہار شریعت،جلد 02، حصہ 07، صفحہ 76، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی)۔

ایک اور جگہ ارشاد فرماتے ہیں: عورت کے والدین ہر ہفتہ میں ایک بار اپنی لڑکی کے یہاں آ سکتے ہیں  شوہر منع نہیں کر سکتا، ہاں اگر رات میں  وہاں رہنا چاہتے ہیں تو شوہر کو منع کرنے کا اختیار ہے اور والدین کے علاوہ اور محارم ( یعنی وہ رشتہ دار جن سے نکاح ہمیشہ کے لیے حرام ہے ) سال بھر میں ایک بار آ سکتے ہیں  ۔ یوہیں عورت اپنے والدین کے یہاں ہر ہفتہ میں ایک بار اور دیگر محارم کے یہاں سال میں ایک بار جاسکتی ہے، مگر رات میں  بغیر اجازت شوہر وہاں نہیں رہ سکتی، دن ہی دن میں واپس آئے اور والدین یا محارم اگر فقط دیکھنا چاہیں تو اس سے کسی وقت منع نہیں کر سکتا۔ اور غیروں کے یہاں جانے یا اُن کی عیادت کرنے یا شادی وغیرہ تقریبوں کی  شرکت سے منع کرے بغیر اجازت جائے گی تو گنہگار ہوگی اور اجازت سے گئی تو دونوں  گنہگار ہوئے۔

( بہار شریعت جلد 02، حصہ 07، صفحہ 272، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی )

واللہ اعلم عزوجل و رسولہ الکریم اعلم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

                     کتبہ

سگِ عطار محمد رئیس عطاری بن فلک شیر غفرلہ

اپنا تبصرہ بھیجیں