طلاق کے بعد اولاد ماں باپ میں سے کس کے پاس رہے گی؟

سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے کے بارے میں کہ طلاق کے بعد اولاد ماں باپ میں سے کس کے پاس رہے گی؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الملك الوھاب اللھم ھدایة الحق و الصواب

طلاق کی وجہ سے مرد و عورت میں جدائی ہوجائے تو لڑکا سات سال تک اور لڑکی نو سال تک ماں کے پاس رہے گی جبکہ ماں کی اخلاقی حالت درست ہو لیکن اس دوران اگر ماں نے ایسے شخص سے نکاح کرلیا جو بچوں کا نسبی محرم نہیں تو ماں کا حق پرورش ساقط ہوجائے گا اور پھر حق پرورش نانی کو حاصل ہوگا، نانی نہ ہو یا پرورش کرنے کی اہل نہ ہو تو نانی کی ماں کو ملے گا، وہ نہ ہو تو دادی کو، دادای نہ ہو تو پردادی کو ملے گا۔(اس کی مزید تفصیل کتب فقہ میں ہے)۔لڑکا سات سال کے بعد بالغ ہونے تک اور لڑکی جب تک کنواری ہے باپ کے پاس رہے گی۔

سنن ابو داؤد میں ہے: “عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، أَنَّ امْرَأَةً قَالَتْ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ ابْنِي هَذَا كَانَ بَطْنِي لَهُ وِعَاءً، وَثَدْيِي لَهُ سِقَاءً، وَحِجْرِي لَهُ حِوَاءً ، وَإِنَّ أَبَاهُ طَلَّقَنِي وَأَرَادَ أَنْ يَنْتَزِعَهُ مِنِّي. فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” أَنْتِ أَحَقُّ بِهِ مَا لَمْ تَنْكِحِي “.ترجمہ: عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راویت ہے کہ ایک عورت نے حضور ( صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم )  سے عرض کی ، یا رسول اللہ! (  صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم  )میرا یہ لڑکا ہے میرا پیٹ اس کے لیے ظرف تھا اور میری چھاتیاں اس کے لیے مشک اور میری گود اس کی  محافظ تھی اور اس کے باپ نے مجھے طلاق دیدی اور اب اسکو مجھ سے چھیننا چاہتا ہے۔ حضور ( صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم )  نے ارشاد فرمایا: ’’تو زیادہ حقدار ہے جب تک تو نکاح نہ کرے۔(سنن أبي داود ، کتاب الطلاق، باب من احق بالولد،جلد 3، صفحہ 588،حدیث 2276،دار الرسالۃ العالمیہ)

در مختار میں ہے:  “والحاضنة أما، أو غيرها أحق به أي بالغلام حتى يستغني عن النساء وقدر بسبع وبه يفتى۔۔۔۔۔۔۔۔والأم والجدة لأم، أو لأب أحق بها بالصغيرة۔۔۔۔۔ وقدر بتسع وبه يفتى”ترجمہ: پرورش کرنے والی ماں یا اس کے علاوہ (نانی دادی وغیرہ) ہو تو وہ لڑکے کی زیادہ حقدار ہونگی جب تک لڑکا عورت کی پرورش سے مستغنی نہ ہوجائے اور اس کی مدت سات سال ہے اور اسی پر فتوی ہے۔۔۔

۔اور ماں اور نانی دادی وغیرہ (ذی محرم) لڑکی کی زیادہ حق دار ہونگی اور اس کی مدت نو سال ہے اور اسی پر فتوی ہے۔(در مختار مع رد المحتار،جلد 5،کتاب الطلاق،باب الحضانۃ،صفحہ 273 تا 274، دار المعرفہ بیروت)

فتاوی عالمگیری میں ہے: ” الحضانة أحق الناس بحضانة الصغير حال قيام النكاح أو بعد الفرقة الأم إلا أن تكون مرتدة أو فاجرة غير مأمونة” ترجمہ: لوگوں میں بچوں کی پرورش کا زیادہ حق نکاح میں رہتے ہوئے اور طلاق کے بعد ماں کو ہے بشرطیکہ ماں مرتدہ یا فاجرہ غیر مامون نہ ہو۔(الفتاوی الھندیۃ،جلد 1،کتاب الطلاق،الباب السادس عشر فی الحضانۃ،صفحہ 565،دار العلمیۃ بیروت)

درمختار میں ہے: ” و الحضانۃ یسقط حقھا بنکاح غیر محرمہ” ترجمہ: پرورش کرنے والی کا حق پروش اس وقت ساقط ہوجائے گا جب عورت ایسے شخص سے نکاح کرلے جو بچے کا نسبی محرم نہ ہو۔

“بنکاح غیر محرمہ” کے تحت رد المحتار میں ہے: “کان ینبغی ان یقول غیر محرمۃ النسبی لان الرضاعی کالاجنبی فی سقوط حضانتھا بہ” یوں کہنا بہتر تھا کہ بچے کے نسبی محرم کے علاوہ سے نکاح کرنے پر حق ساقط ہوگا کیونکہ رضاعی رشتہ اجنبی کی طرح ہے بچوں کے رضاعی رشتے دار سے نکاح کرنے سے بھی حق ساقط ہوجائے گا۔ (در مختار مع رد المحتار،جلد 5،کتاب الطلاق،باب الحضانۃ،صفحہ 272، دار المعرفہ بیروت)

بہار شریعت میں فتاوی شامی کے حوالے سے ہے:”ماں  اگر نہ ہو یا پرورش کی  اہل نہ ہو یا انکار کر دیا یا اجنبی سے نکاح کیا تو اب حق پرورش نانی کے لیے ہے یہ بھی نہ ہو تو نانی کی  ماں  اس کے بعد دادی پر دادی بشرائط مذکورۂ بالا پھر حقیقی بہن پھر اخیافی بہن پھر سوتیلی بہن پھر حقیقی بہن کی  بیٹی پھر اخیافی بہن کی  بیٹی پھر خالہ یعنی ماں  کی  حقیقی بہن پھر اخیافی پھر سوتیلی پھر سوتیلی بہن کی  بیٹی پھر حقیقی بھتیجی پھر اخیافی بھائی کی  بیٹی پھر سوتیلے بھائی کی  بیٹی پھر اسی ترتیب سے پھوپیاں  پھر ماں  کی  خالہ پھر باپ کی  خالہ پھر ماں  کی  پھوپیاں  پھر باپ کی  پھوپیاں  اور ان سب میں  وہی ترتیب ملحوظ ہے کہ حقیقی پھر اخیافی پھر سوتیلی۔ اور اگر کوئی عورت پر ورش کرنے والی نہ ہو یا ہو مگر اسکا حق ساقط ہو تو عصبات بہ ترتیبِ ارث یعنی باپ پھر دادا پھر حقیقی بھائی پھر سوتیلا پھر بھتیجے پھر چچا پھر اس کے بیٹے مگر لڑکی  کوچچا زاد بھائی کی  پرورش میں  نہ دیں  خصوصاً جبکہ مشتہاۃ ہوا ور اگر عصبات بھی نہ ہوں  تو ذوی الارحام کی  پرورش میں  دیں  مثلاً اخیافی بھائی پھر اُسکا بیٹا پھر ماں  کا چچا پھر حقیقی ماموں  ۔ چچا اور پھوپھی اور ماموں  اور خالہ کی  بیٹیوں  کو لڑکے کی  پرورش کاحق نہیں۔”(بہار شریعت،جلد 2،حصہ 8،صفحہ 254،مکتبۃ المدینہ)

مزید لکھتے ہیں:” سات برس کی  عمر سے بلوغ تک لڑکا اپنے باپ یا دادا یا کسی اور ولی کے پاس رہے گا پھر جب بالغ ہوگیا اور سمجھ دار ہے کہ فتنہ یا بدنامی کا اندیشہ نہ ہوا ور تادیب  کی  ضرورت نہ ہو تو جہاں  چاہے وہاں  رہے اور اگر اِن باتوں  کا اندیشہ ہو اور تادیب کی  ضرورت ہو تو باپ دادا وغیرہ کے پاس رہے گا خود مختار نہ ہوگا۔۔۔۔۔یہ حکم فقہی ہے مگر نظر بحالِ زمانہ خود مختار نہ رکھا جائے، جب تک چال چلن اچھی طرح درست نہ ہو لیں  اور پورا وثوق  نہ ہولے کہ اب اس کی  وجہ سے فتنہ و عار نہ ہوگا کہ آج کل اکثر صحبتیں  مخرب اخلاق ہوتی ہیں  اور نو عمری میں  فساد بہت جلد سرایت کرتا ہے۔(ایضا)

فتاوی قاضی خان میں ہے: ” اذا بلغت الجاریۃ مبلغ النساء ان کانت بکرا کان للاب ان یضمھا الی نفسہ” ترجمہ: لڑکی نو سال کے بعد جب تک کنواری ہے باپ کے پاس رہے گی۔(فتاوی قاضی خان،جلد 1،کتاب النکاح،فصل فی الحضانہ، صفحہ 367،دار الکتب العلمیہ)

واللہ اعلم عزوجل و رسولہ اعلم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

کتبہ : ابو بنتین محمد فراز عطاری مدنی عفی عنہ بن محمد اسماعیل

اپنا تبصرہ بھیجیں