شیئرز کا کاروبار کرنا کیسا ہے؟

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین مسئلہ ذیل میں کہ شیئرز کا کاروبار کرنا کیسا ہے؟ بینوا توجروا۔

جواب: الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب۔

شیئرز کا کام کرنا ناجائز و حرام ہے کہ اس میں سود میں ملوث ہونا پایا جاتا ہے لہذا مسلمانوں کو اس سے بچنا ہے حد ضروری ہے۔

اس کی تفصیل یہ ہے کہ شیئرز دو طرح کے ہوتے ہیں (01) ترجیحی (02) مساواتی۔

ترجیحی حصص (Preference Shares): یہ حصص عام حصص(Ordinary Shares) سے مختلف ہوتے ہیں۔ ان حصص کے خریدار کو کمپنی اپنے معاہدے کے مطابق نفع میں ترجیح دیتی ہے یعنی کمپنی کا کاروبار نفع میں ہو یا نقصان میں انہیں بہر حال نفع ملتا رہتا ہے۔ تو مساواتی حصہ والوں کے بالمقابل انہیں نفع میں ترجیح دی جاتی ہے، اس لیے ان حصص کو ترجیحی حصص کہتے ہیں۔ نفع کی شرح ان حصص میں بھی فیصد کے لحاظ سے ہی مقرر کی جاتی ہے مثلا 05 فیصد، 10 فیصد۔ مگر اس فیصد کا تعین تجارت کے نفع کو سامنے رکھ کر نہیں کیا جاتا بلکہ حصہ داروں کے ذریعہ جمع شدہ روپوں کو سامنے رکھ کر کیا جاتا ہے ،اس لیے یہاں 05 فیصد کا مطلب مثلا سور روپے میں 05 روپے ہیں یعنی اگر کسی شخص نے پانچ سو روپے کے ترجیحی حصص 05 فیصد نفع کے حساب سے لیے تو اس کا نفع آج ہی سے 25 روپے معلوم و متعین ہے۔ اب کمپنی کو اپنی تجارت میں نفع ہو یا نقصان اسے یہ 25 روپے بطور نفع برابر ملتے رہیں گے۔ ترجیحی حصص کا یہ معاملہ نہ شرکت ہے، نہ مضاربت بلکہ یہ واقع میں عقدِ قرض ہے، جو نفع کی شرط سے مشروط ہے۔ نفع کی شرط پر قرض کا لین دین سودی کاروبار ہے کیونکہ خود یہ نفع ہی سود ہے۔ لہذا یہ ناجائز ہے۔

مزید شیئرز کے کاروبار میں قرض تمسکات ہیں کہ کمپنی عوام سے قرض لے کر ان کو ایک چھپی ہوئی رسید دیتی ہے جس پر قرضے کی رقم، اس کی رقم کی ادائیگی کی مدت اور دیگر تفصیلات درج ہوتی ہیں، اسی رسید کو ڈبینچرز (Debentures) اور سند قرض بھی کہا جاتا ہے۔ کمپنی حصص سے الگ تھلگ عوامی قرض تمسکات جاری کرتی ہے جس پر وہ ایک مقررہ شرح سے اپنے قرض خواہوں کو سود دیتی ہے۔عوامی قرض تمسکات تمام منظور شدہ سرمایہ جاری ہونے کے بعد جاری کیے جاتے ہیں۔ ترجیحی حصص والی ہی صورت قرض تمسکات میں بھی ہوتی ہے۔ کمپنی اپنے حصص کا اجرا قرض تمسکات سے منسلک کر کے کرتی ہے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جو شخص صرف حصص میں سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے اسے کمپنی کے حصص کے ساتھ قرض تمسکات بھی لازماً بادلِ ناخواستہ لینے پڑتے ہیں ۔ایسی صورت میں کمپنی اسنادِ حصص اور قرض تمسکات الگ الگ جاری کرتی ہے۔اس رسید میں قرضہ کی رقم ،شرح سود،رقم کی ادائیگی،اس کی مدت اور دیگر تفصیلات درج ہوتی ہیں۔ لہذا یہ بھی ناجائز ہے۔

 مساواتی حصص: مساواتی حصص میں اگرچہ نفع و نقصان میں برابر کی شرکت ہوتی ہے لیکن یہ اپنے ساتھ سودی قرض کی پیچیدگی لیے ہوئے ہیں۔ کمپنی اپنا سود از خود ادا نہیں کرتی بلکہ مساواتی شیئر ہولڈر اس سود کو ادا کرتے ہیں۔ کیونکہ یہ شرکت سودی قرض میں آلودگی کے بغیر ممکن نہیں اور یہ آلودگی بلاشبہ ناجائز ہے، تو جو چیز اس آلودگی کا ذریعہ بنے گی وہ بھی ناجائز ہوگی۔ علماء کے ایک گروہ کا مؤقف ہے کہ مساواتی حصص والا سود کے لین دین میں عملی طور پر مبتلا ہے اور بعض کے نزدیک یہ عملی طور پر ملوث نہیں لیکن اس سودی عقد میں تعاون کررہا ہے۔ البتہ تمام علمائے محققین کے نزدیک ترجیحی حصص کی طرح مساواتی حصص بھی ناجائز ہیں۔

 مجلس شرعی کے فیصلے نامی کتاب میں ہے: ” مساواتی حصص والا نفع اور نقصان دونوں میں شریک ہوتا ہے اگر کمپنی نے دس لاکھ روپے جمع کیے، پانچ لاکھ ترجیحی حصص اور قرض تمسکات کے ذریعہ۔ پانچ لاکھ مساواتی حصص کے ذریعہ اور دو لاکھ کا نقصان ہوا تو اس نقصان میں ترجیحی حصص اور قرض تمسکات والے بالکل شریک نہ ہوں گے، بلکہ ان کو مقررہ سود ملتا رہے گا اور ان کا اصل سرمایہ بھی محفوظ رہے گا اور دو لاکھ کا سارا نقصان مساواتی حصص والوں پر عائد ہوگا۔ اس طرح یہ شریک سود دینے اور سودی قرض کا نقصان سہنے کا عملا مرتکب ہوگیا ۔۔۔ اس لیے یہ شرکت ناجائز ہے۔ یہ رائے حضرت شارح بخاری ( علامہ مفتی محمد شریف الحق امجدی صاحب )، حضرت محدث کبیر( علامہ ضیاء المصطفی قادری صاحب ) اور حضرت ( علامہ محمد احمد ) مصباحی دامت برکاتہم القدسیہ کی ہے ۔“ ( مجلس شرعی کے فیصلے، صفحہ 141، مطبوعہ دارالنعمان، پاکستان )۔

مفتی اعظم پاکستان حضرت علامہ مولانا محمد وقارالدین رضوی قادری علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں: ” کسی کمپنی کے شئیرز خریدنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے اس کمپنی کے ایک حصہ کو خرید لیا ہے اور آپ اس حصہ کے مالک ہو گئے اور وہ کمپنی جو جائز و ناجائز کام کرے گی اس میں آپ بھی حصہ دار ہوں گے۔ جتنی کمپنیاں قائم ہوتی ہیں وہ اپنے شیئرز کے اعلان کے ساتھ مکمل تفصیلات بھی شائع کر دیتی ہیں کہ یہ کمپنی کتنے سرمایہ سے قائم کی جائے گی، اس میں غیر ملکی سرمایہ کتنا ہوگا اور ملکی قرضہ کتنا ہوگا اور کمپنی قائم کرنے والے اپنا کتنا سرمایہ لگائیں گے اور کتنے سرمایہ کے شیئرز فروخت کیے جائیں گے۔ لہٰذا شیئرز خریدنے والا اس سود کے لین دین میں شریک ہو جائے گا۔ جس طرح سود لینا حرام ہے اسی طرح سود دینا بھی حرام ہے تو وہ شیئرز خریدنا بھی حرام ہے“.

مزید فرماتے ہیں: ” موجودہ دور میں جو شئیرز کا کاروبار ہے وہ محرمات ( یعنی حرام کاموں ) کا مجموعہ ہے، ان میں ایسی کمپنیوں کا شیئرز بھی فروخت ہو رہا ہے جن کا ابھی وجود بھی نہیں ہے، صرف پروگرام ہے۔ اور بعض شیئرز جو خریدے جاتے ہیں اور قبضہ کے بغیر فروخت کر دیئے جاتے ہیں، یہ بھی جائز نہیں ہے کیونکہ احادیث میں صراحتاً بغیر قبضہ کئے کسی چیز کو فروخت کرنے کی ممانعت ہے۔ اور جو چیز موجود ہی نہیں ہے اس کی بیع ( یعنی خرید و فرخت ) ” باطلِ محض ” ہے۔ ( وقار الفتاوی، جلد 01، صفحہ 234، مطبوعہ بزم وقارالدین کراچی)۔

مفتی نظام الدین صاحب دامت برکاتہم العالیہ فرماتے ہیں: ” مساواتی حصص اپنی حقیقتِ شرعیہ کے لحاظ سے سرمایہ شرکت ہیں اور ان کے ذریعے کمپنی میں زرکاری شرکت کی ایک خاص قسم ” شرکت عنان “ ہے جو شرعا جائز ہے، اس لیے کمپنی میں یہ زرکاری بھی جائز ہونی چاہیے، لیکن کمپنی خسارے کی صورت میں اپنے ذمہ کا سود ادا کرنے کے لیے ہر شریک سے کچھ نہ کچھ لیتی ہے، تو یہ جانتے ہوئے کمپنی میں شرکت قبول کرنا ایک ناجائز کام میں تعاون کا ذریعہ ہوا، اس لیے کمپنی کا شریک بننا ناجائز ہے۔“ ( شیئرز کے کاروبار کے شرعی مسائل، صفحہ 59، مطبوعہ فرید بک سٹال، لاہور )۔

واللہ اعلم عزوجل و رسولہ الکریم اعلم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

                        کتبہ

سگِ عطار محمد رئیس عطاری بن فلک شیر

اپنا تبصرہ بھیجیں