سادات کرام کو زکوۃ نہیں دے سکتے

مفتی صاحب آپکی بارگاہ میں عرض ہے ہمارے علاقے  میں تقریبا 95 پرسنٹ عباسی  اور کچھ اعوان  کی رہائش ہے.پسماندہ علاقہ ہے اور غریب لوگ ہیں کیا اس صورت میں ہم عباسی سادات کرام کو زکوۃ دے سکتے ہیں؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

سادات کرام کو زکوۃ نہیں دے سکتے

سادات کرام اور دیگر بنو ہاشم کو زکوۃ اس لئے نہیں دے سکتے کہ ان پر زکوۃ حرام ہے اور اس پر چاروں مذاہب(حنفی ,شافعی,مالکی, حنبلی) متفق ہیں.

اور حرام ہونے کی وجہ ان کی عزّت و کرامت ہے کہ زکوٰۃ مال کا مَیل ہے اور بقیہ صدقاتِ واجبہ کی طرح گناہوں کو دھونے والا ، تو ان صدقات واجبہ کا حال مستعمل پانی کی طرح ہے جو گناہوں کی نجاسات اور حدث کی گندگیاں دھو کر لایا. اُن پاک لطیف سُتھرے اہلبیت طیب و طہارت کی شان اس سے بہت ارفع و اعلیٰ ہے کہ ایسی چیزوں سے آلودگی کریں.

خود احادیثِ صحیحہ میں اس علّت کی تصریح فرمائی

“الصحیح المسلم”میں ہے

قال لنا:إن هذه الصدقات إنما هي أوساخ الناس، وإنها لا تحل لمحمد، ولا لآل محمد

حضور (صلیﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) نے فرمایا: آلِ محمد صلیﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے لیے صدقہ جائز نہیں  کہ یہ تو آدمیوں  کے مَیل ہیں.

( الصحیح المسلم،کتاب الزکاۃ، باب ترک استعمال آل النبی علی الصدقۃ، الحدیث :1072 ، ص539 دارالمغنی عرب شریف)

اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے مفتی احمد یار خاں علیہ الرحمۃ الرحمن “مراۃ المناجیح”میں فرماتے ہیں

یہ حدیث ایسی واضح اور صاف ہے جس میں کوئی تاویل نہیں ہوسکتی یعنی مجھے اور میری اولاد کو زکوۃ لینا اس لیے حرام ہے کہ یہ مال کا میل ہے لوگ ہمارے میل سے ستھرے ہوں ہم کسی کا میل کیوں لیں.

(مرأۃ المناجیح کتاب الزکوۃ باب من لا تحل لہ الصدقۃ ج3 ص351)

“الصحیح البخاری”میں ہے

أبا هريرة رضي الله عنه، قال: أخذ الحسن بن علي رضي الله عنهما، تمرة من تمر الصدقة، فجعلها في فيه، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «كخ كخ» ليطرحها، ثم قال: «أما شعرت أنا لا نأكل الصدقة»

ابوہریرہ رضیﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی، کہ امام حسن رضیﷲ تعالیٰ عنہ نے صدقہ کا خرما لے کر منھ  میں رکھ لیا۔ اس پر حضور اقدس صلیﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’چھی چھی کہ اُسے پھینک دیں ، پھر فرمایا: کیا تمھیں  نہیں  معلوم کہ ہم صدقہ نہیں  کھاتے۔‘‘

(صحیح البخاري،کتاب الزکاۃ، باب مایذکر في الصدقۃ للنبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم وآلہ، الحدیث :1491 ج1 ص503 مطبوعہ دارلکتب العلمیہ٬بیروت)

اعلی حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ والرضوان “فتاوی رضویہ”میں ایک اسی طرح کے سوال کا جوباب دیتے ہوئے فرماتے ہیں.

بنی ہاشم کو زکوٰۃ و صدقات واجبات دینا جائز نہیں، نہ انھیں لینا حلال۔ سید عالم صلیﷲتعالیٰ علیہ وسلم سے متواتر حدیثیں اس کی تحریم میں آئیں،ا ور علتِ تحریم ان کی عزّت و کرامت ہے کہ زکوٰۃ مال کا مَیل ہے اور مثل سائر صدقاتِ واجبہ غاسل ذنوب ،تو ان کا حال مثل ماءِ مستعمل کے ہے جو گناہوں کی نجاسات اور حدث کے قاذورات دھو کر لایا اُن پاك لطیف سُتھرے لطیف اہلبیت طیب و طہارت کی شان اس سے بس ارفع و اعلیٰ ہے کہ ایسی چیزوں سے آلودگی کریں

(فتاوی رضویہ ج10 ص272    رضافاؤنڈیشن لاہور)

ایک دوسری جگہ پر فتاوی رضویہ شریف میں ہے

زکوٰۃ ساداتِ کرام و سائرِ بنی ہاشم پر حرامِ قطعی ہے جس کی حرمت پر ہمارے آئمہ ثلٰثہ بلکہ آئمہ مذ اہبِ اربعہ رضیﷲتعالٰی عنہم اجمعین کا اجماع قائم۔ امام شعرانی رحمہﷲتعالٰی میزان میں فرماتے ہیں

اتفق الائمۃ الاربعۃ علی تحریم الصدقۃ المفروضۃ علی بنی ھاشم و بنی عبد المطلب وھم خمس بطون اٰل علی واٰل العباس و اٰل جعفر واٰل عقیل واٰل الحارث بن عبد المطلب ھذامن مسائل الاجماع و الاتفاق.

باتفاقِ آئمہ اربعہ بنو ہاشم اور بنو عبدالمطلب پر صدقہ فرضیہ حرام ہے، اور وُہ پانچ خاندان ہیں: آلِ علی، آلِ عباس،آلِ جعفر، آلِ عقیل، آلِ حارث بن عبدالمطلب۔ یہ اجماعی اور اتفاقی مسائل میں سے ہے

(فتاوی رضویہ ج10 ص99 رضافاؤنڈیشن لاہور)

“بہار شریعت” میں ہے

بنی ہاشم کوزکاۃ نہیں  دے سکتے۔ نہ غیر انھیں  دے سکے، نہ ایک ہاشمی دوسرے ہاشمی کو.

بنی ہاشم سے مُراد حضرت علی و جعفر و عقیل اور حضرت عباس و حارث بن عبدالمطلب کی اولادیں  ہیں.

(بہار شریعت حصہ 5 ص 937مطبوعہ مکتبۃ المدینہ).

ان دلائل سے معلوم ہوا کہ سادات کرام کو زکوۃ وغیرہ صدقات واجبہ دینا جائز نہیں ہے.

لہذا مالدار لوگوں کو چاہیئے کہ اپنے صاف مال سے ان حضرات عالیہ کی خدمت کریں.

ہاں اگر کہیں پر ایسی صورت بالکل بن ہی نہیں سکتی کہ کوئی اپنا صاف مال پیش کرسکےتو پھر اس کیلئے یہ صورت اپنائی جائے کہ کسی مستحق زکوۃ کو مالِ زکوۃ کا مالک بنا کر مال اس کے قبضے میں دے دیا جائے پھر وہ ان سادات کرام کی خدمت میں پیش کردے.

(فتاوی امجدیہ ج1 ص390 مکتبہ رضویہ لاہور)

مجیب:ابو معاویہ زاہد بشیر مدنی

اپنا تبصرہ بھیجیں