ہیلتھ انشورنس کروانا

آسٹریلیا میں میڈیکل بہت مہنگا ہے اگر ہیلتھ انشورنس نہ کروائی جائے تو بہت آزمائش ہو سکتی ہے۔ صرف ہاسپٹل کی ایک دن کی فیس 2000 آسٹریلین ڈالر سے زیادہ (پاکستانی دولاکھ ستر ہزار سے زیادہ) ہے۔ ڈاکٹر کی فیس اور ٹیسٹوں کی فیس اس کے علاوہ۔ میں اپنے والدین کو آسٹریلیا بلا رہا ہوں جن کی عمر تقریباً 70 سال سے زائد ہے۔ کیا میں انکی ہیلتھ انشورنس کروا سکتا ہوں؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ
اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

مذکورہ صورت کے جوئے پر مشتمل ہونے کی وجہ سے ہیلتھ انشورنس کروانا جائز نہیں کیونکہ ہیلتھ انشورنس میں اپنے مال کو خطرے میں پیش کیا جاتا ہے یعنی بیمار ہونے کی صورت میں تو کمپنی کی طرف سے علاج وغیرہ کے پیسے مل جائیں گے جبکہ بیمار نہ ہونے کی صورت میں اپنی جمع کرائ گئ رقم بھی وآپس نہیں ملتی، اور یہ جوا ہے ، جو ناجائز و حرام ہے، نیز آسٹریلیا اگرچہ غیر مسلم ملک ہے لیکن کافروں کے ساتھ بھی جوئے کی اجازت تب ہے جب واضح طور پر مسلمان کو فائدہ ہو، جبکہ یہاں مسلمان کا فائدہ یقینی نہیں، لہذا شرعی طور پر اس عقد کی اجازت نہیں.

ارشاد باری تعالیٰ ہے(یَسْـئَلُوْنَکَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ قُلْ فِیْہِمَآ اِثْمٌ کَبِیْرٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَ اِثْمُہُمَآ اَکْبَرُ مِنْ نَّفْعِہِمَا) ترجمہ: تم سے شراب اور جوئے کا حکم پوچھتے ہیں ،تم فرمادو کہ ان دونوں میں بڑا گناہ ہے اور لوگوں کے کچھ دنیوی نفع بھی اور ان کا گناہ ان کے نفع سے بڑا ہے۔
(سورۃ البقرہ،پارہ02، آیت 219)

ایک اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ( یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَ الْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ) ترجمہ : اے ایمان والو!شراب اور جُوااور بُت اور پانسے ناپاک ہی ہیں شیطانی کام تو ان سے بچتے رہنا کہ تم فلاح پاؤ۔
(سورۃ المائدہ،پارہ07، آیت90)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : “إن اللہ حرم علیکم الخمر والمیسر والکوبۃ وقال کل مسکر حرام” ترجمہ : ﷲتعالیٰ نے شراب، جوا اور ڈھول حرام کیا اور فرمایا:ہر نشے والی چیز حرام ہے۔
(سنن الکبری للبیھقی، کتاب الشھادات، جلد 10،صفحہ 360،دار الکتب العلمیہ، بیروت)

امام فخر الدین زیلعی رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں :” ان اللہ تعالى حرم القمار ” ترجمہ: اللہ عزوجل نے جوئے کوحرام فرمایا۔
( تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق ،کتاب الکراہیۃ،فصل فی البیع،جلد6، صفحہ31، مطبوعہ ملتان)

المحیط البرہانی فی الفقہ النعمانی میں ہے:” القمارمشتق من القمر الذی یزداد وینقص، سمی القمار قماراً، لا ن کل واحد من المقامرین ممن یجوز ان یذھب مالہ الی صاحبہ، ویستفید مال صاحبہ، فیزداد مال کل واحد منھما مرۃ وینتقص اخری، فاذا کان المال مشروطاً من الجانبین کان قماراً، والقمار حرام، ولان فیہ تعلیق تملیک المال بالخطر، وانہ لا یجوز ” ترجمہ : قمار ،قمر سے مشتق (نکلا)ہے،جوبڑھتااورگھٹتاہے،اسے قمار اس لیےکہا جاتا ہےکہ مقامرین (جواکھیلنے والوں) میں سے ہر ایک کا مال اس کے ساتھی کے پاس جاسکتاہے اوروہ اپنے ساتھی کے مال سے فائدہ حاصل کرسکتاہے، پس ان میں سے ہرایک کا مال کبھی بڑھ جاتا ہے اور کبھی کم ہوجاتاہے ،پس جب مال جانبین سے مشروط ہوتووہ قمار ہوگا اور قمار حرام ہے اوراس لیے کہ اس میں مال کے مالک بنانے کو خطرے پر معلق کیاجاتاہے اوریہ ناجائزہے ۔
( المحیط البرھانی فی الفقہ النعمانی ،کتاب الاستحسان والکراھیۃ، الفصل السابع فى المسابقة، جلد06،صفحہ54، مطبوعہ کوئٹہ)

فتاویٰ رضویہ شریف میں بیمہ میں جوئے کی ایک صورت کے متعلق ہے ” یہ نرا قمار ہے، اس میں ایک حد تک روپیہ ضائع بھی جاتا ہے، اور وہ منافع موہوم جس کی امید پر اگر دین ملے بھی تو کمپنی بے وقوف نہیں کہ گرہ سے ہزار ڈیڑھ ہزار دے بلکہ وہ وہی روپیہ ہو گا جو اوروں کا ضائع گیا اور ان میں مسلمان بھی ہوں گے، تو کوئ وجہ اس کی حلت کی نہیں.”
(فتاوی رضویہ ،ج17، ص381 ، رضا فاؤنڈیشن لاہور)

مفتی اعظم پاکستان حضرت علامہ مفتی محمد وقارالدین قادری رضوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ، بیمہ کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں:” ہرقسم کابیمہ ناجائزہے۔اسلام کاقاعدہ یہ ہے کہ جوکسی کامالی نقصان کرے گا ، وہی ضامن ہوگا اوربقدرِنقصان تاوان دے گا۔قرآن کریم میں ہے:﴿فمن اعتدی علیکم فاعتدوا علیہ بمثل مااعتدی علیکم ﴾لہذاچوری،ڈکیتی،آگ لگنے اورڈوبنے وغیرہ کابیمہ ناجائزہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ جب مال کانقصان انشورنس کمپنی نے نہیں کیاتووہ تاوان کیوں دے گی؟ پھر زندگی کے اور دیگر ہر قسم کے بیمے میں جو بھی شامل ہے، کیونکہ یہ معلوم نہیں کہ زندگی کے بیمے کی کتنی قسطیں ادا کرے گا کہ موت آ جائیگی اور وہ پوری رقم اس کے وارثوں کو مل جائے گی اور اگر زندہ رہ گیا تو دی ہوئی رقم مع سود کے وآپس کر دی جائے گی، غرض یہ کہ بیمہ محرمات کا مجموعہ ہے، اب یہ کہا جا رہا ہے کہ ایک دوسرے کی مدد کرنے کے لئے لوگوں سے جو روپیہ لیا جاتا ہے وہ ان لوگوں کو دے دیا جاتا ہے جن کا نقصان ہوتا ہے اگر یہ صحیح ہے تو جتنا روپیہ وصول کیا جاتا ہے وہ ان لوگوں کی اجازت سے ہے جن سے لیا گیا ہے اگر نقصان زدہ لوگوں میں تقسیم کر دیا جائے تو پھر انشورنس کمپنیاں کروڑوں روپے کہاں سے کماتی ہیں؟ معلوم ہوا یہ عذر صرف لوگوں کو بے وقوف بنانے کے لیے گھڑے گئے ہیں “
(وقارالفتاوی،ج اوّل،ص 240،مطبوعہ کراچی)

کفار سے قمار کے مباح ہونے کی شرط فتح القدیر کے حوالے سے بیان کرتے ہوئے علامہ ابن عابدين شامی علیہ الرحمتہ فرماتے ہیں : فالظاهر أن الإباحة بقيد نيل المسلم الزيادة، وقد ألزم الأصحاب في الدرس أن مرادهم في حل الربا والقمار ما إذا حصلت الزيادة للمسلم نظرا إلى العلة” ترجمہ : ظاہر یہی ہے کہ (کفار کے ساتھ) قمار کا مباح ہونا، مسلمان کے فائدہ پانے کے ساتھ مقید ہے اور اصحاب نے درس میں یہ لازم کیا ہے کہ ان کی مراد سود اور جوئے کے جواز سے یہ ہے کہ جب زیادت مسلمان کو حاصل ہو جائے علّت پر نظرکرتے ہوئے.
(الدر المختار و رد المحتار، کتاب البیوع ، باب الربا ، مطلب فی استقراض الدراہم عددا، 5/186)

فتاویٰ رضویہ شریف میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمتہ ، ایسی بیمہ کمپنی کے متعلق جسکے مالک نصرانی مذہب کے ہیں، ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں : یہ بالکل قمار ہے اور محض باطل کہ کسی عقد شرعی کے تحت میں داخل نہیں، ایسی جگہ عقود فاسدہ بغیر عذر کے جو اجازت دی گئی وہ اس صورت سے مقید ہے کہ ہر طرح ہی اپنانفع ہو اور یہ ایسی کمپنیوں میں کسی طرح متوقع نہیں لہٰذا اجازت نہیں. کما حقق المحقق علی الاطلاق فی فتح القدیر.
(فتاوی رضویہ ،ج 17 ،ص 365 ،رضا فاؤنڈیشن لاہور)

صدر الشریعہ بدر الطریقہ حضرت علامہ مولانا مفتی امجد علی اعظمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :”کفار سے اس طرح پر عقد فاسد کے ذریعہ رقم حاصل کرنے میں جواز اسی وقت ہے جبکہ نفع مسلم کا ہو۔“

(فتاوی امجدیہ، جلد3، صفحہ238، مکتبہ رضویہ، کراچی)

(والله تعالى اعلم بالصواب)

کتبہ : ابو الحسن حافظ محمد حق نواز مدنی

اپنا تبصرہ بھیجیں