صدقۂ فطر کی ادائیگی میں کس جگہ کا اعتبار کیا جائے گا

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے کے بارے میں کہ صدقۂ فطر کی ادائیگی میں کس جگہ کا اعتبار کیا جائے گا، جہاں وہ شخص رہتا ہے یا جہاں وہ ادا کروانا چاہتا ہے؟ بینوا تؤجروا

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

صدقہ فطر کی ادائیگی میں اس جگہ کا اعتبار کیا جائے کہ جہاں وہ رہتا ہے، مثلاً اگر کوئی شخص کویت میں رہتا ہے اور پاکستان میں ادائیگی کروانا چاہتا ہے تو کویت کے صدقۂ فطر(یعنی قیمت) کا اعتبار کیا جائے گا۔

قربانی کے نصاب کے متعلق ہدایہ میں ہے:
” وحيلة المصري إذا أراد التعجيل أن يبعث بها إلى خارج المصر فيضحي بها كما طلع الفجر، لأنها تشبه الزكاة من حيث أنها تسقط بهلاك المال قبل مضي أيام النحر كالزكاة بهلاك النصاب فيعتبر في الصرف مكان المحل لا مكان الفاعل اعتبارا بها، بخلاف صدقة الفطر لأنها لا تسقط بهلاك المال بعدما طلع الفجر من يوم الفطر “۔
ترجمہ:اورشہری کاحیلہ جب کہ وہ قربانی جلدی کرناچاہے، یہ ہے کہ وہ قربانی والے جانورکو شہر سے باہربھیج دے ،تواسے فجرطلوع ہوتے ہی ذبح کیاجاسکتاہے، کیونکہ یہ زکوۃ کے مشابہ ہے ،اس اعتبارسے کہ ایام نحرسے پہلے مال کے ہلاک ہونے سے ساقط ہوجاتاہے ،جیسے زکوۃ ساقط ہوجاتی ہے نصاب کے ہلاک ہونے سے، پس ادائیگی میں محل کے مکان کااعتبار ہوگا نہ کہ فاعل کے مکان کازکوۃ پرقیاس کرتے ہوئے ،برخلاف صدقہ فطرکے ،کیونکہ یوم عیدالفطرکی فجرطلوع ہونے کے بعد مال کے ہلاک ہونے سے یہ ساقط نہیں ہوتا۔
(الھدایۃ، کتاب الاضحیۃ، اخیرین، ص446، مطبوعہ لاہور)

اس کے تحت بنایہ شرح ہدایہ میں ہے:
‘‘(بخلاف صدقة الفطر)حيث يعتبر فيها مكان الفاعل وهو المؤدي(لأنها لا تسقط بهلاك المال بعد ما طلع الفجر من يوم الفطر) فحينئذ يعتبر مكان صاحب الذمة وهو المؤدي۔’’
ترجمہ:برخلاف صدقہ فطرکے کہ اس میں فاعل کے مکان کااعتبار ہے اورفاعل سے مراد اداکرنے والاہے ،کیونکہ یوم عیدالفطرکی فجرطلوع ہونے کے بعد مال کے ہلاک ہونے سے یہ ساقط نہیں ہوتا،پس اب جس کے ذمہ صدقہ فطرلازم ہے ،اس کے مکان کااعتبارہوگااوروہ ہے اداکرنے والا۔
(البنایۃ شرح الهدایۃ، کتاب الاضحیۃ، ج11، ص27-28، کوئٹہ)

فتاوی عالمگیری میں ہے:
وفي صدقة الفطر يعتبر مكانه
ترجمہ: اور صدقہ فطر میں جس کے ذمہ لازم ہے ،اس کے مکان کااعتبارہوگا۔
(فتاوی هندیہ ،کتاب الزکاۃ،الباب السابع فی المصارف،ج01،ص190،مطبوعہ کوئٹہ)

بہارشریعت میں ہے: صدقۂ فطر میں وہ شہر مراد ہے جہاں خود رہتا ہے۔
(بہار شریعت،جلد اول، حصہ پنجم، صفحہ 933، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

کتبہ

محمد منور علی اعظمی بن محمد شریف اعظمی غفرلہ

اپنا تبصرہ بھیجیں