دادا کی جائیداد میں حصہ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ جو بیٹا والد کی زندگی میں فوت ہوجائے کیا اس فوت شدہ کے بچے دادا کی جائیداد میں حصے دار ہوں گے جبکہ دادا کی اور اولاد زندہ ہے؟ رہنمائی فرما کر عند اللہ ماجور ہوں.

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

صورت مسئولہ میں پوتے کو حصہ نہیں ملے گا کیونکہ بیٹے اور پوتے دونوں عصبات میں سے ہیں اور بیٹا بنسبت پوتے کے قریبی عصبات میں سے ہیں اور عصبات کے بارے میں فقہ کا یہ قاعدہ ہے کہ قریبی عصبات دور کے عصبات پر مقدم ہوتے ہیں لہذا بیٹے پوتے پر مقدم ہوں گے البتہ مستحب ہے کہ دادا ایسے وراثت سے محروم پوتوں کے بارے کچھ وصیت کرکے انہیں مال کا مستحق بنادے یا پھر بالغ ورثاء اپنے اپنے حصے میں سے انہیں کچھ دے کر ان کے ساتھ بھلائی و خیر خواہی کا معاملہ کریں.

“الدر المختار” میں ہے: ويقدم الاقرب فالاقرب منهم) بهذا الترتيب فيقدم جزء الميت (كالابن ثم ابنه وإن سفل.

عصبات میں سے زیادہ قریبی کو مقدم کیا جائے گا پھر اس کے بعد جو زیادہ قریبی ہو” تو اس ترتیب کے سبب جزء میت مقدم ہوگا جیسے بیٹا پھر پوتا  اسی طرح نیچے تک

(الدر المختار کتاب الفرائض فصل فی العصبات ص763 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ).

“فتاوی عالمگیری” میں ہے: فَأَقْرَبُ الْعَصَبَاتِ الِابْنُ ثُمَّ ابْنُ الِابْنِ

عصبات میں سے سب سے زیادہ قریبی عصبہ بیٹا ہے پھر بیٹے کا بیٹا(یعنی پوتا)

(فتاوی عالمگیری ج6 کتاب الفرائض باب الثالث فی العصبات ص451 مطبوعہ دار الفکر البیروت)

“فتاوی امجدیہ” صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ اللہ القوی اسی طرح کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں: دادا کی زندگی میں باپ مرگیا پھر دادا کا انتقال ہوا اور (دادا نے)بیٹا چھوڑا ہے تو پوتے کو کچھ نہیں ملے گا کہ جو کچھ ذی الفرائض سے بچے گا وہ بیٹا لے گا اور اگر دادا نے بیٹا نہیں چھوڑا تو پوتا وارث ہے اور عصبات میں مقدم ہے.

(فتاوی امجدیہ ج4 کتاب الفرائض ص 371 مطبوعہ دارالعلوم امجدیہ مکتبہ رضویہ آرام باغ روڈ کراچی)

“بہار شریعت” میں ہے: قریبی رشتہ دار دور والے رشتہ دار کو محروم کر دیتاہے۔

(لہذا بیٹے کے ہوتے ہوئے) پوتا خواہ اس بیٹے سے ہو یا دوسرے بیٹے سے ہو محروم رہے گا کیونکہ بیٹا بہ نسبت پوتے کے زیادہ قریب ہے

(بہار شریعت حصہ 20 کتاب الفرائض حجب کا بیان ص 1141 مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)

“فتاوی فیض الرسول” میں فقیہ ملت مفتی جلال الدین احمد امجدی اسی طرح کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں: صورت مسئولہ میں خالد کی اولاد کو زید کی میراث سے حصہ نہیں ملے گا اس لئے کہ جس طرح باپ کی موجودگی میں دادا کو حصہ نہیں ملتا اسی طرح بیٹے کی موجودگی میں میں پوتے کو حصہ نہیں ملے گا اگرچہ یتیم پوتوں کو مال کی زیادہ ضرورت ہے کہ وراثت کا دار و مدار قرابت پر ہے نہ کہ ضرورت پر. اسی لئے لنجے بھائی کو بیٹا کی موجودگی میں حصہ نہیں ملے گا اگرچہ اسے مال کی زیادہ ضرورت ہے فتاوی عالمگیری ج ششم مصری ص 430 میں ہے الاقرب یحجب الابعد کالابن یحجب اولاد الابن. لیکن محمود کو چاہیے کہ وہ اپنے بھتیجوں کے ساتھ احسان کرے خدائے تعالیٰ اس پر احسان فرمائے گا.

(فتاوی فیض الرسول ج 2 کتاب الفرائض ص 735 مطبوعہ شبیر برادر لاہور)

“وقار الفتاویٰ” میں مفتی وقار الدین قادری رضوی علیہ الرحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں: وہ پوتے جن کا باپ انتقال کر چکا ہے وہ اپنے دادا کی کے مال میں حصہ دار نہیں ہوتے جبکہ دادا کے دوسرے بیٹے زندہ ہوں. جب پوتے یتیم ہوں تو دادا کو چاہیے کہ ان پوتوں کو کچھ دے دے یا ان کیلئے وصیت کر جائے.

(وقار الفتاویٰ ج3 کتاب الفرائض، ورثاء کے حقوق کا بیان ص 406 ناشر بزم وقار الدین).

اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:  وَ اِذَا  حَضَرَ  الْقِسْمَةَ  اُولُوا  الْقُرْبٰى  وَ  الْیَتٰمٰى  وَ  الْمَسٰكِیْنُ  فَارْزُقُوْهُمْ  مِّنْهُ  وَ  قُوْلُوْا  لَهُمْ  قَوْلًا  مَّعْرُوْفًا(۸)

ترجمہ: پھر بانٹتے وقت اگر رشتہ دار اور یتیم اور مسکین آجائیں تو اس میں سے انہیں بھی کچھ دو اور ان سے اچھی بات کہو

(پ4 سورۃ النساء آیۃ 8)

“تفسیر صراط الجنان” میں اس آیت کے تحت لکھا ہے: اس آیت میں غیر وارثوں کو وراثت کے مال میں سے کچھ دینے کا جوحکم دیا گیا ہے، یہ دینا مستحب ہے……… اس مستحب حکم پر یوں بھی عمل ہوسکتا ہے کہ بعض اوقات کوئی بیٹا یتیم بچے چھوڑ کر فوت ہوجاتا ہے اور اس کے بعد باپ کا انتقال ہوتا ہے تو وہ یتیم بچے چونکہ پوتے بنتے ہیں اور چچا یعنی فوت ہونے والے کا دوسرا بیٹا موجود ہونے کی وجہ سے یہ پوتے داد ا کی میراث سے محروم ہوتے ہیں تو دادا کو چاہیے کہ ایسے پوتوں کو وصیت کر کے مال کا مستحق بنا دے اور اگر دادا نے ایسا نہ کیا ہو تو وارثوں کو چاہیے کہ اوپر والے حکم پر عمل کرتے ہوئے اپنے حصہ میں سے اسے کچھ دے دیں۔ اس حکم پر عمل کرنے میں مسلمانوں میں بہت سستی پائی جاتی ہے بلکہ اس حکم کا علم ہی نہیں ہوتا۔ البتہ یہ یاد رہے کہ نابالغ اور غیر موجود وارث کے حصہ میں سے دینے کی اجازت نہیں۔

(صراط الجنان فی تفسیر القرآن پ4 سورۃ النساء آیت 8 مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)

واللہ تعالی اعلم بالصواب والیہ المرجع والمآب

مجیب: ابو معاویہ زاہد بشیر عطاری مدنی

اپنا تبصرہ بھیجیں