وقف کی جگہ تبدیل کرنا

سوال: کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام   اس مسئلے کے بارے  میں آجکل ایک جگہ کو کوئی وقف کرتا ہے تو کچھ عرصہ بعد وہ جگہ مہنگی ہوجاتی ہے تو واقف یا اس کی اولاد یہ تقاضا کرتی ہے کہ یہ پلاٹ چھوڑ کر آپ اس کے بدلے میں دوسری جگہ وقف کروالیں۔ کیا شرعا یوں وقف کی جگہ تبدیل کرنا درست ہے؟

الجواب بعون الملک الوھاب اللہم ہدایۃ الحق والصواب

 کسی جگہ کے شرعی طریقے کے  مطابق  وقف  ہوجانے کے بعد اس میں کسی تبدیلی کا اصلًا اختیار نہیں ہوتا،  جب کوئی چیز وقف ہوگئی تو وقف  کرنے والا اس کا مالک نہیں رہتا  ،نہ اسکو بیچ سکتا ہے نہ اسکو تبدیل کرسکتا ہے   ۔لہذ ا اولاد کا  بھی اسطر ح  وقف شدہ جگہ  کے مہنگا ہونے کی وجہ  سے  نہ دینا یابدلنا  یابیچنا  ہرگز جائز نہیں  ، بلکہ یہ ظلم وزیاتی ہوگی ۔

درمختار میں ہے: فاذا تم ولزم لایملک ولایملک ولایعار ولایرھن :یعنی جب وقف تام اور لازم ہوجائے تو کوئی نہ اس کا مالک بنے نہ کسی کو مالک بناسکے، نہ عاریۃً دیاجائے اورنہ رہن رکھاجاسکے گا۔                           

   (درمختار،    کتاب الوقف     3/379)

 ہندیہ میں ہے :فيلزم ولا يباع ولا يوهب ولا يورث كذا في الهداية۔یعنی(وقف)  لازم ہوجائے تو نہ اسکو بیچاجاسکتا ہے نہ ہی کسی کو تحفہ دیا جاسکتا ہے نہ ہی وراثت جاری ہوگی ،اسی طرح ہدایہ میں  بھی ہے۔

(”الفتاوی الھندیۃ”، ج2،ص350.)

فتاوی خلیلیہ میں ہے :جو چیز وقف کردی گئی وہ واقف کی ملک سے خارج ہوجاتی ہے اور جس پر وقف کیا ہے اس کی ملک میں داخل نہیں ہوتی بلکہ خالص اللہ تعالی کی ملک قرار پاتی ہے، جب شے موقوف واقف کی ملک نہ رہی تو اس تو اسے واپسی کا بھی اختیار نہ رہا اب زمین پر اور اس  پر تعمیر شدہ عمارت پر  قبضہ کرنا سراسر ظلم وزیادتی ہے ۔

(فتاوی خلیلیہ 02ص515)

بہارشریعت میں ہے:وقف کو نہ باطل کرسکتا ہے نہ اس میں میراث جاری ہوگی نہ اسکی بیع ہوسکتی ہے نہ ہبہ ہوسکتا ہے۔

(بہارشریعت ج2ص523)

وقف صحیح ہوجانے کے بعد اس میں کسی تبدیلی کا اصلًا اختیار نہیں۔

 (فتاوی رضویہ ج16ص120)

کتبہ:احسان  احمد عطاری قادری

نظر ثانی : مفتی ابواحمد محمد انس قادری صاحب دامت برکاتہ