نفلی روزے کے ساتھ قضا شدہ  فرض روزے کی نیت کرسکتے ہیں یا نہیں؟

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ نفلی روزے کے ساتھ قضا شدہ  فرض روزے کی نیت کرسکتے ہیں یا نہیں؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

پوچھی گئی صورت میں نفلی روزے کے ساتھ قضا شدہ  فرض روزے کی نیت نہیں کرسکتے، اس لئے کہ ایک ہی روزے میں نفل اور قضا دونوں کی نیت نہیں ہوسکتی، لہذا اگر کسی نے ایک ہی روزے میں نفلی اور قضا شدہ  فرض روزے کی نیت کی کرلی تو یہ صرف قضا شدہ فرض روزہ شمار ہوگا نفلی روزہ شمار نہیں ہوگا،اس مسئلے کی مزید تفصیل یہ ہے کہ اس مسئلے میں امام ابو یوسف علیہ الرحمہ اور امام محمد علیہ الرحمہ کا اختلاف ہے، امام ابو یوسف علیہ الرحمہ

کا مؤقف یہ ہے کہ اس صورت میں قضا شدہ فرض روزہ شمار ہوگا اور امام محمد علیہ الرحمہ کا مؤقف یہ ہے کہ اس صورت میں نفلی روزہ شمار ہوگا

اور فتوی امام ابویوسف علیہ الرحمہ کے قول پر ہے دو وجوہات کی بنا پر،پہلی وجہ یہ ہے کہ امام ابو یوسف علیہ الرحمہ کا مؤقف حضرت سیدنا امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ الله عليه سے مروی روایت کے موافق ہے تو مطلب یہ ہوا کہ  امام ابو یوسف علیہ الرحمہ کا موقف امام اعظم علیہ الرحمہ کے مؤقف کے مطابق ہے اور فقہاۓ کرام نے ذکر فرمایا ہے کہ عبادات کے معاملے میں فتوی امام اعظم علیہ الرحمہ کے قول پر ہوگا۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ جب ائمہ مذہب کا کسی مسئلے میں اختلاف ہو تو امام اعظم علیہ الرحمہ کے اختیار کردہ قول کو مقدم کیا جائے گا، خواہ اس مسئلے میں آپ کے اصحاب میں سے کوئی آپ کے موافق ہو یا نہ ہو، اور جب امام اعظم علیہ الرحمہ کا کوئی قول موجود نہ ہو تو پھر اس قول کو اختیار کیا جائے گا جسے امام ابو یوسف علیہ الرحمہ نے اختیار کیا ہو، اور جب امام ابو یوسف علیہ الرحمہ کا قول بھی اس مسئلہ میں موجود نہ ہو تو پھر امام محمد علیہ الرحمہ کا قول اختیار کیا جائے گا،لہذا اس قاعدے کی رو سے بھی فتوی امام ابو یوسف علیہ الرحمہ کے قول پر ہوگا۔

فتاوٰی ہندیہ میں ہے:وإذا نوى قضاء بعض رمضان، والتطوع يقع عن رمضان في قول أبي يوسف – رحمه الله تعالى -، وهو رواية عن أبي حنيفة – رحمه الله تعالى – كذا في الذخيرة”.ترجمہ: اور جب کسی شخص نے (ایک روزے میں) رمضان کے ایک قضا شدہ اور نفلی روزے کی نیت کی تو امام ابو یوسف علیہ الرحمہ کے قول کے مطابق یہ فرض روزہ شمار کیا جائے گا اور یہی امام اعظم علیہ الرحمہ سے مروی ایک روایت ہے، ایسا ہی ذخیرہ میں ہے۔

(الفتاوى الهندية، جلد1، ص196، دارالکفر، بیروت)

بحر الرائق میں ہے:“ولو نوى قضاء رمضان والتطوع كان عن القضاء في قول أبي يوسف، خلافاً لمحمد فإن عنده يصير شارعاً في التطوع۔۔۔الخ۔

ترجمہ: اور اگر کسی شخص نے رمضان کے قضا روزے اور نفلی روزے کی نیت کی تو امام ابو یوسف علیہ الرحمہ کے قول کے مطابق یہ قضا روزہ شمار کیا جائے گا، برخلاف امام محمد علیہ الرحمہ کہ اس لئے کہ ان کے نزدیک وہ شخص نفلی روزہ شروع کرنے والا شمار ہوگا۔

(البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري، جلد2، ص299، دارالکتب العلمیہ، بیروت)

شرح عقود رسم المفتی میں ہے:فللّٰه در الامام الاعظم ما ادق نظرہ وما اسد فکرہ ولامر ما جعل العلماء الفتوی  علی قولہ فی العبادات مطلقاً وھو الواقع بالاستقراء۔۔۔الخ۔

ترجمہ: امام اعظم علیہ الرحمہ کیسے دقیق النظر اور صاحب الرائے تھے یہی وجہ ہے کہ عبادات میں علماء نے  مطلقا امام اعظم علیہ الرحمہ کے قول پر فتوی دیا ہے، مختلف کتب کے تتبع سے یہی بات ظاہر ہوتی ہے۔

(شرح عقود رسم المفتی، ص169، مطبوعہ دارالنور للتحقیق و التصنیف)

شرح عقود رسم المفتی میں دوسرے مقام پر ہے:اذا اختلفوا یقدم ما اختارہ ابوحنیفۃ سواء وافقہ احد اصحابہ او لا، فان لم یوجد لہ اختیار قدم ما اختارہ یعقوب۔۔۔وحیث لم یوجد لابی یوسف اختیار قدم قول امام محمد ابن الحسن۔

یعنی: جب ائمہ مذہب کا کسی مسئلے میں اختلاف ہو تو امام اعظم علیہ الرحمہ کے اختیار کردہ قول کو مقدم کیا جائے گا، خواہ اس مسئلے میں آپ کے اصحاب میں سے کوئی آپ کے موافق ہو یا نہ ہو، اور جب امام اعظم علیہ الرحمہ کا کوئی قول موجود نہ ہو تو پھر اس قول کو اختیار کیا جائے گا جسے امام ابو یوسف علیہ الرحمہ نے اختیار کیا ہو، اور جب امام ابو یوسف علیہ الرحمہ کا قول بھی اس مسئلہ میں موجود نہ ہو تو پھر امام محمد علیہ الرحمہ کا قول اختیار کیا جائے گا۔

(شرح عقود رسم المفتی، ص98، مطبوعہ دارالنور للتحقیق و التصنیف)

واللّٰه تعالی اعلم بالصواب۔

کتبه: ندیم عطاری مدنی حنفی۔

نظر ثانی: ابو احمد مفتی انس رضا قادری۔