بیٹے کا نام محمد رکھنے کی فضیلت اور اس کا ادب

سوال: اپنے بیٹے کا نام محمد رکھنے کی کیا فضیلت ہے اور اس کا ادب کیا ہے؟

الجواب بعون الملک الوھاب اللّھم ھدایۃ الحق و الصواب

اپنے بیٹے کا نام محمد رکھنا باعث خیر و برکت ہے

چنانچہ رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا

 من ولد له مولود فسماه محمداً حباً لي وتبركاً باسمي كان هو ومولوده في الجنة»”

.(السيرة الحلبية  (1/ 121) باب تسمیتہ ﷺ محمداً واحمد، ط: دارا لکتب العلمیہ)

ترجمہ: جس شخص  کے ہاں لڑکا پیدا ہوا اور وہ میری محبت کی وجہ سے اور میرے نام  سے برکت حاصل کرنے کے لیے اس بچے کا نام ”محمد“ رکھے تو وہ شخص اور اس کا بچہ دونوں جنتی ہوں گے”۔

اسی طرح ایک اور روایت علامہ یوسف بن اسماعیل نبھانی علیہ الرحمہ نے نقل کی ہے کہ: «إذا كان يوم القيامة نادى منادٍ: يا محمد! قم فادخل الجنة بغير حساب! فيقوم كل من اسمه محمد، يتوهم أن النداء له؛ فلكرامة محمد صلى الله عليه وسلم لا يمنعون»”.

(السيرة الحلبية  (1/ 121) باب تسمیتہ ﷺ محمداً واحمد، ط: دارا لکتب العلمیہ)

ترجمہ” قیامت کے دن ایک پکارنے والا پکارے گا کہ اےمحمد! اٹھیے اور بغیر حساب  کتاب کے جنت میں داخل ہوجائیے ، تو ہر وہ آدمی جس کا نام ”محمد“ ہوگا  یہ سمجھتے ہوئے کہ  یہ اسے کہا جارہا ہے  وہ (جنت میں جانے کے لیے) کھڑا ہوجائے گا تو حضرت محمدﷺ کے اِکرام میں انہیں جنت میں جانے سے نہیں روکا جائےگا”۔

اور امام مالک بن انس علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ:سمعت أهل مكة يقولون: ما من بيت فيه اسم محمد إلا نمى ورزقوا ورزق جيرانهم”.

(كتاب الشفاء، الباب الثالث، الفصل الاول،(1/176) ط: دارالفکر)

ترجمہ ” میں نے اہلِ مکہ سے سنا ہے کہ  جس گھر میں ”محمد“ نام والا ہو تو اس کی وجہ سے ان کو اور ان کے پڑوسیوں کو رزق دیا جاتا ہے”۔

اسی طرح نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم اپنے نام کی ترغیب دلاتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں۔

تم میں سے کسی کا کیا نقصان ہے اگر اس کے گھر میں ایک محمد یا دو محمد یا تین محمد ہوں۔

(طبقات ابن سعد ،ج5،ص40)

 امامِ اہلِ سنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ اس حدیثِ پاک کو نقل کرکے فرماتے ہیں: فقیر غفراﷲ تعالٰی  نے اپنے سب بیٹوں بھتیجوں کاعقیقے میں صرف محمدنام رکھا پھرنامِ اَقْدس کے حفظِ آداب اور باہم تَمَیُّز (یعنی آپس میں پہچان) کے  لئے عُرف جُدا مقرر کئے۔ بِحَمْدِ ﷲِ تَعَالٰی فقیرکے پانچ  محمد اب موجود ہیں اور پانچ سے زائد اپنی راہ گئے (یعنی انتقال کرگئے)۔

(فتاویٰ رضویہ،ج24،ص689)

جس بچے کانام محمد رکھا جائے تو پھر اس کو لعن طعن نہ کیا جائے اور نہ ہی گالی گلوچ نکالا جائے بلکہ جہاں تک ممکن ہو اس نام کی وجہ سے اس کا اکرام کیا جائے کیونکہ رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ نے فرمایا:جب تم بچے کا نام محمد رکھو تو اس کا اکرام کرو ،اس کے لیے مجلس میں وسعت پیدا کرو اور اس کے چہرے کی تقبیح نہ کرو۔

( فیض القدیر:3/246)

واللہ اعلم ورسولہ اعلم

کتبہ: حبیب سلطان عطاری مدنی

نظر ثانی: ابو احمد مفتی محمد انس رضا قادری صاحب