اگر کسی پر قرض ہوتو کیا  وہ صدقات وخیرات کرسکتے ہیں

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ اگر کسی پر قرض ہوتو کیا  وہ صدقات وخیرات کرسکتے ہیں ؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جس کے اوپر قرض  وہ پہلے اپنا قرض ادا کرے پھر نفلی صدقہ دےکہ قرض میں بلاوجہ تاخیر کرنا جائز نہیں۔ البتہ اگر ایسا قرض ہے کہ اس کی طے شدہ تاریخ نہیں آئی وہ آرام سے ادا بھی کر لے گا اور قرض خواہ اس کا تقاضا بھی نہیں کر رہا تو اس صورت میں اس کا نفلی صدقہ دینے میں کوئی حرج نہیں ہے اگرچہ اس صورت میں بھی پہلے قرض اتارنا بہتر ہے۔

“صحیح بخاری ” میں ہے:قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَوْ كَانَ لِي مِثْلُ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا يَسُرُّنِي أَنْ لَا يَمُرَّ عَلَيَّ ثَلَاثٌ، وَعِنْدِي مِنْهُ شَيْءٌ إِلَّا شَيْءٌ أُرْصِدُهُ لِدَيْنٍ»

حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے فرماتے ہیں رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میرے پاس احد پہاڑ برابر سونا ہو تو مجھے یہ اچھا لگے گا کہ تین راتیں ایسی نہ گزریں کہ جن میں اس سونے سے کچھ بھی میرے پاس ہو بجز اتنے کے جسے ادائے قرض کے لیے رکھوں.

(الصحیح البخاری ج 3 حدیث 2389ص 116 مطبوعہ دار طوق النجاۃ البیروت )

مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمۃ اللہ الغنی مرأۃ المناجیح میں اس حدیث پاک کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں :حدیث کا مطلب بالکل ظاہر ہے،یہ گفتگو ظاہر کے لحاظ سے ہے ورنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اگر چاہتے تو آپ کے ساتھ سونے کے پہاڑ چلاکرتےجیساکہ دوسری حدیث میں صراحۃً مذکور ہے۔اس میں اشارۃً فرمایا گیا کہ مقروض نفلی صدقہ نہ دے بلکہ پہلے قرض ادا کرے،نیز اتنی عظیم الشان سخاوت وہ کرسکتا ہے جس کے بال بچے بھی صابر شاکر ہوں ورنہ انہیں بھوکا مارکرنفلی خیرات نہ کرو۔

(مرأۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح ج3 باب الإنفاق وكراہيۃ الإمساك  الفصل الاول ص83 مطبوعہ قادری پبلشرز).

“صحیح مسلم” میں ہے:عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَطْلُ الْغَنِيِّ ظُلْمٌ، وَإِذَا أُتْبِعَ أَحَدُكُمْ عَلَى مَلِيءٍ فَلْيَتْبَعْ»،

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسو لﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا غنی کا ٹال مٹول ظلم ہے  اور جب تم میں سے کسی کا قرض غنی پر حوالہ کیا جائے تو حوالہ قبول کرلے.

(صحیح مسلم ج 3 بَابُ تَحْرِيمِ مَطْلِ الْغَنِيِّ، وَصِحَّةِ الْحَوَالَةِ، وَاسْتِحْبَابِ قَبُولِهَا إِذَا أُحِيلَ عَلَى مَلِيٍّ حدیث:1564 ص 1197 مطبوعہ دار احیاء التراث العربی).

اس حدیث مبارکہ کی شرح کرتے ہوئے شارح صحیح مسلم امام نووی رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں: قَالَ الْقَاضِي وَغَيْرُهُ الْمَطْلُ مَنْعُ قَضَاءِ مَا اسْتُحِقَّ أَدَاؤُهُ فَمَطْلُ الْغَنِيِّ ظُلْمٌ وَحَرَامٌ وَمَطْلُ غَيْرِ الْغَنِيِّ لَيْسَ بِظُلْمٍ وَلَا حَرَامٍ لِمَفْهُومِ الْحَدِيثِ وَلِأَنَّهُ مَعْذُورٌ وَلَوْ كَانَ غَنِيًّا وَلَكِنَّهُ لَيْسَ مُتَمَكِّنًا مِنَ الْأَدَاءِ لِغَيْبَةِ الْمَالِ أَوْ لِغَيْرِ ذَلِكَ جَازَ لَهُ التَّأْخِيرُ إِلَى الْإِمْكَانِ ).

امام قاضی اور ان کے علاوہ نے فرمایا کہ “مطل(ٹال مٹول کرنا)” یعنی جس چیز کو ادا کرنا ضروری ہے اسے پورا کرنے سے رک جانا. پس غنی کا ٹال مٹول کرنا ظلم ہے اور حرام ہے اور فقیر کا قرض ادا کرنے سے رک جانا ظلم و حرام نہیں ہے مفہوم حدیث کی وجہ سے اور وجہ سے بھی کہ وہ معذور ہے.

اور اگر کوئی شخص غنی تو ہے لیکن مال موجود نہ ہونے کی وجہ سے  یا کسی اور وجہ سے قرض ادا کرنے پر قادر نہیں ہے جو اس کیلئے ادا کرنے میں تاخیر کرنا جائز ہے یہاں تک کہ ادا کرنا ممکن ہو جائے.

(شرح نووی علی المسلم ج10 ص 227 مطبوعہ دار احیاء التراث العربی).

مفسر شہیر مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمۃ اللہ الغنی مرأۃ المناجیح میں اس حدیث پاک کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:یعنی جس مقروض کے پاس ادائے قرض کے لیے پیسہ ہو پھر ٹالے تو وہ ظالم ہے اسے قرض خواہ ذلیل بھی کرسکتا ہے اور جیل بھی بھجواسکتا ہے،یہ شخص مقروض گنہگار بھی ہوگا کیونکہ ظالم گنہگار ہوتا ہی ہے۔

(مرأۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح ج4 ص 322 مطبوعہ قادری پبلشرز)

واللہ تعالی اعلم بالصواب والیہ المرجع والمآب

مجیب:ابو معاویہ زاہد بشیر عطاری مدنی

(23ربیع الاول 1443ھ بمطابق 30 اکتوبر 2021ء بروز ہفتہ)