امام تیسری رکعت میں بیٹھے اور لقمہ لے کر کھڑا ہوجائے

سوال: امام اگر غلطی سے تیسری رکعت میں بیٹھے اور تین تسبیحات کی مقدار سے کم بیٹھا تھا کہ لقمہ لے کر کھڑا ہوجائے تو کیا سجدہ سہو لازم ہوگا؟

الجواب بعون الملک الوهاب اللهم هداية الحق والصواب

امام چار رکعت والی نماز میں بھول کر تیسری رکعت میں بیٹھ جائے اورتین تسبیحات کی مقدار بیٹھنے  سے پہلے لقمہ لے کر کھڑا ہو جائےتو سجدہ سہو لازم نہیں ہو گا۔

درمختار میں نماز کے واجبات میں فرمایا:وترک قعود قبل ثانیۃ او رابعۃ یعنی دوسری یا چوتھی رکعت سے پہلے قعدہ نہ کرنا واجب ہے۔ردالمحتار میں ہے: وكذا القعدة في آخر الركعة الأولى أو الثالثة فيجب تركها، ويلزم من فعلها أيضا تأخير القيام إلى الثانية أو الرابعة عن محله،وھذا اذا کانت القعدۃ طویلۃ ۔۔۔وهكذا كل زيادة بين فرضين يكون فيها ترك واجب بسبب تلك الزيادة؛ ويلزم منها ترك واجب آخر وهو تأخير الفرض الثاني عن محلہ۔یونہی  پہلی یا تیسری رکعت کے آخر میں قعدہ کا ترک بھی واجب ہے،اور قعدہ کرنے سے دوسری یا چوتھی رکعت کے قیام کو اس کی جگہ سے مؤخر کرنا بھی لازم آتا ہے، یہ اس صورت میں ہو گا جب قعدہ طویل ہو۔۔۔یونہی دو فرضوں کے درمیان ہر اضافے (کا ترک واجب ہےتو )اس اضافے کی وجہ سے ترک واجب ہو گا اور اس سے ایک اور واجب کا ترک بھی لازم آئیگا اور وہ دوسرے فرض کو اس کی جگہ سے مؤخر کرنا ہے۔      

(فتاویٰ شامی، جلد 2، ص 201، دارالمعرفہ بیروت)

 فتاویٰ شامی میں ہی ہے: والحاصل أنہ اختلف فی التفکر الموجب للسہو، فقیل مالزم منہ تأخیر الواجب أو الرکن عن محلہ بأن قطع الاشتغال بالرکن أو الواجب قدر أداء رکن وہو الأصح  یعنی حاصل یہ ہے کہ سجدہ سہو واجب کرنے والے غور و فکرکی مقدار میں اختلاف ہے، تو کہا گیا ہے کہ جس غور و فکر کرنے میں کسی واجب یا رکن کو اس کی جگہ سے مؤخر کرنا لازم آئے، اس طور پر کہ ایک رکن کی ادائیگی کی مقدار تک اگلے رکن یا واجب کو ادا کرنا مؤخر ہو جائے، یہی اصح ہے۔    

(فتاویٰ شامی، جلد 2، ص 678، دارالمعرفہ بیروت)

طحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے: ولم يبينوا قدر الركن وعلى قياس ما تقدم أن يعتبر الركن مع سنته وهو مقدر بثلاث تسبيحاتیعنی علما نے رکن کی مقدار واضح نہیں کی، اور ماقبل بحث پر قیاس کرتے ہوئے یہ حکم ہے کہ رکن کو سنت کے مطابق ادا کرنے کا اعتبار کیا جائے اور اس کی مقدار تین تسبیحات ہے۔

(طحطاوی علی المراقی، ص 474، دارالکتب العلمیہ)

فتاویٰ مرکز تربیت افتا جلد اول میں ہے:”امام چار رکعت والی نماز میں تیسری رکعت پربیٹھ گیا اور امام کے تکبیر کی آواز ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ مقتدی نے لقمہ دے دیا، امام فوراً کھڑا ہو گیا یا تیسری رکعت میں ابھی تین تسبیح کی مقدار بیٹھا بھی نہ تھا کہ مقتدی نے لقمہ دے دیا اور وہ کھڑا ہو گیا تو ان صورتوں میں سجدہ سہو واجب نہیں کیونکہ سجدۂ سہو کم از کم تین تسبیح کی مقدار تاخیر سے واجب ہوتا ہے۔“     

(فتاویٰ مرکز تربیت افتا جلد اول، ص 289)

حبیب الفتاوی میں بھول کر تیسری رکعت میں بیٹھنے کے بارے میں سوال ہوا تو جواباَارشاد فرمایا’’اگر امام تین تسبیح کی مقدار بیٹھا رہا ۔۔۔تو قیام میں اتنی تاخیر کرنے سے سجدۂ سہو لازم وواجب ہوگا۔‘‘           

(حبیب الفتاوی،ص427،شبیر برادرز،لاہور)

فتاویٰ خلیلیہ میں سوال ہوا:”زید ظہر کی نماز میں یہ خیال کر کے کہ چار رکعت پوری ہو گئی، تیسری میں بیٹھ گیا تو مقتدی نے اٹھنے کو کہا تو زید فوراً چوتھی رکعت کے لیے اٹھ کھڑا ہوا تو اب زید پر سجدہ سہو کرنا واجب ہے یا نہیں؟“ جواباً ارشاد فرمایا:”اگر بقدر ایک رکن کے وقفہ نہ پایا گیا تو سجدہ سہو واجب نہیں نماز درست ہو گی۔“         

(فتاویٰ خلیلیہ جلد اول، ص 235، ضیاءالقرآن لاہور)

فیضان فرض علوم جلد دوم میں ہے:امام کو بیٹھے اگر تین مرتبہ سبحان اللہ کہنے کی مقدار نہیں ہوئی تو اسے لقمہ دے سکتے ہیں کیونکہ اس مقدار سے کم میں سجدۂ سہو وغیرہ کچھ نہیں ہوتا،لہٰذا یہ لقمہ کا محل ہے کہ کہیں امام تین مرتبہ سبحان اللہ کہنے کی مقدار نہ بیٹھ جائے اور اس پر سجدۂ سہو نہ واجب ہو جائے،لہٰذا اسے اس سے بچانے کے لیے لقمہ دینے کی اجازت ہے۔

(فیضان فرض علوم جلد دوم ص 171)

     و  الله      اعلم عزوجل و رسولہ اعلم صلی اللہ علیہ وسلم                                             

محمدایوب عطاری               

15 ربیع الاول  1442 ھ/20 اکتوبر  2021 ء

نظر ثانی  :محمد انس رضا قادری