کیا پسند کی شادی کرنا جائز ہے

سوال :کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس  مسئلے کے بارے میں :کیا پسند کی شادی کرنا جائز ہے؟

الجواب بعون الملک الوھاب  اللہم ھدایۃ الحق والصواب

آج کل مرد و عورت کے مخلوط نظام ، پردے کے فُقدان ، بے شرمی و بے حیائی کے فَروغ  نیز موبائل اور انٹر نیٹ کے غلط استعمال وغیرہ کی وجہ سے دوسری بہت سی بُرائیوں کے علاوہ ایک اور بُرائی ہمارے مُعاشَرے میں بہت عام ہوتی جارہی ہے اور وہ ہے لڑکے اور لڑکی کا باہم دوستی کرنا اور ایک دوسرے کو رفیقۂ حیات (Life Partner) کے طور پر پسند کرنا ، اِس کی وجہ سے بعض اوقات وہ دونوں اپنے والدین اور بُزرگوں کے فیصلوں کے مقابلے میں کھڑے ہوجاتے ہیں ،اصل تو اسلام نے  اس  رشتے کو قائم کرنے میں مرد و عورت کی پسند کا لحاظ رکھاہے  ۔مگر اسی نے والدین کے ادب و احترام ، اُن کے ساتھ مہربانی و حسنِ سُلوک اور جائز معاملات میں اُن کی فرمانبرداری کا درس بھی دیا ہے ، لہٰذا اگرچہ پسند کی شادی جائز ہے مگر اس معاملے میں اپنی پسندپربڑوں کے فیصلوں کو فوقیت دینی چاہئے اور اسے  اپنے لئے باعث برکت وبھلائی سمجھنا چاہیے۔

نیزیاد رہے بعض صورتوں  میں اگرعورت اپنے ولی(سرپست )  کی  اجازت کے بغیر نکاح تو نکاح منعقد ہی نہیں ہوتا۔

حدیث  مبارکہ ہے: البرکۃ مع اکابرکم یعنی برکت تمہارے بڑوں کے ساتھ ہے 

(صحيح ابن حبان – محققا – (2 / 319)

حضورِ اکرم ، نورِ مُجَسَّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس جب حضرت خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کا پیغامِ نکاح پہنچا تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس رشتہ کو اپنے چچا ابُو طالب اور خاندان کے دوسرے بڑے بوڑھوں کے سامنے پیش فرمایا۔ سارے خاندان والوں نے نہایت خُوشی کے ساتھ اِس رشتہ کو منظور کر لیااور نکاح کی تاریخ مُقرَّر ہوئی اور حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ حضرت ِحمزہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اور ابُو طالب وغیرہ اپنے چچاؤں اور خاندان کے دوسرے افراد اور شُرفائے بنی ہاشم و سردارانِ مُضَر کو اپنی بَرات میں لے کر حضرت بی بی خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کے مکان پر تشریف لے گئے اور نکاح ہوا۔            

  (سیرت  مصطفی ص93ملخصا )

حلیۃ الاولیاء میں ہے:المنير بن الزبير قال: سمعت مكحولا، يقول: «بر الوالدين كفارة للكبائر، ولا يزال الرجل قادرا على البر ما دام في فصيلته من هو أكبر منه» یعنی حضرتِ سیِّدُنا منیر بن زبیر  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرتِ سیِّدُنا مکحول دمشقی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی کو فرماتے سنا:والدین کے ساتھ بھلائی سے پیش آنا گناہوں کو مٹاتا ہے،جب تک انسان اپنے کنبے کے بڑے شخص  کے ماتحت رہتا ہے بھلائی پر قادر رہتا ہے۔

( حلية الأولياء وطبقات الأصفياء – (5 / 183)

اللہ پاک ارشاد فرماتا   ہے :فانکحوا ماطاب لکم من النساء یعنی نکاح کرو جو تمہیں پسند ہو عورتوں میں سے۔ 

اسکے تحت مدارک میں فرمایا: مااحل کم یعنی جو تمہارے حلال ہےہیں (ان میں  سےجو پسند ہیں ان  سےنکاح کرو )۔

(تفسير النسفي = مدارك التنزيل وحقائق التأويل – (1 / 328)

روح المعانی میں ہے :والمراد مما طاب لكم ما مالت له نفوسكم واستطابته: جو تمہیں پسند ہو: اس سے مراد  وہ ہے  جس کی طرف تمہارے دل مائل ہوں اور  وہ  جسکو پسند کرے۔

(  تفسير الألوسي ، روح المعاني – (2 / 400)

فتاوی بحرالعلوم میں  پسندکی شادی  کےحوالے سے سوال  ہوا تو جواب میں ارشاد میں فرمایا :زید نے دوگواہوں کے سامنے نکاح کرلیا سائل یہ بھی لکھتا ہے کہ زید ہندہ کا کفو بھی ہے اور ان دونوں کا حقیقی چچا بھتیجی کا رشتہ بھی نہیں بلکہ دور کا ہے(سائل نے یہ ذکر کیا تھا ) اگر یہ سب صحیح ہے تو نکاح شرعا صحیح ہوگیا ۔         

                      (فتاوی بحرالعلوم ج02ص147ملخصا )

وقارالفتاوی میں ہے: بالغ لڑکی کو بغیر والی  کی اجازت نکا ح کرنے کا  حق اس  صورت میں ہے جب وہ کفو میں شادی کرے  ، کفو کا مطلب یہ ہے کہ لڑکا  ذات ،برادری  دینداری،مال ودولت  صنعت و حرفت ،شکل وصورت میں لڑکی کے مثل  یا لڑکی سے اعلی مرتبے کا ہو ،اگر لڑکی بغیر اجازت ولی اپنے سے کم درجہ سے نکاح کرےگی یعنی غیر کفو میں نکاح کرے گی  جس سے لڑکی کے خاندان والوں  کے لیے باعث ذلت وعار ہوتو ایسا نکاح باطل ہوجاتا ہے ۔

(وقارالفتاوی ج03ص23)

کتبہ:احسان احمد عطاری بن حضور بخش سکندری 

نظر ثانی :قبلہ مفتی ابواحمد محمد انس قادری صاحب