چار ماہ تک بغیر عذرِ شرعی بیوی سے صحبت نہ کرنا

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ بچے کی ولادت کے وقت بیوی کی خواہش ہےکہ شوہر اس کے پاس ہو لیکن وہ دوسرے شہر میں ہونے کی وجہ سے نہیں آتا۔کیا کام کرنا زیادہ ضروری ہے ؟4ماہ سے زیادہ ہو گئے شوہر نہیں آیا بیو ی کیا کرے؟

الجواب بعون الملك الوهاب اللهم هداية الحق والصواب

نکاح کے بعد ایک بار حق زوجیت ادا کرلینے کے بعد چار ماہ تک بغیر عذرِ صحیح شرعی کے بیوی سے صحبت نہ کرنا ناجائز ہے حتی کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے گھر سے دور مجاہدین کو اس بات کا پابند کیا تھا کہ وہ چار ماہ سے پہلے پہلے اپنی بیوی کے پاس جائیں لیکن اگر بیوی کی رضامندی سے چار ماہ سے زائد حق زوجیت ادا نہیں کرتا تو یہ جائز ہے اب جب کہ چار ماہ سے زائد عرصہ گزر جانے پر بچے کی ولادت کے وقت بیوی کی خواہش ہے کہ شوہر اس کے پاس ہو تو شوہر کو چاہیے کہ وہ کام کاج چھوڑ کر مشکل کی اس گھڑی میں اپنی بیوی کے ساتھ حسن سلوک کےلیے اس کے پاس موجود ہو کہ اس سے بیوی کو انسیت بھی محسوس ہوگی

قرآن کریم میں ہے

وَ عَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِۚ-فَاِنْ كَرِهْتُمُوْهُنَّ فَعَسٰۤى اَنْ تَكْرَهُوْا شَیْــٴًـا وَّ یَجْعَلَ اللّٰهُ فِیْهِ خَیْرًا كَثِیْرًا

 ترجمۂ کنز العرفان: اور ان کے ساتھ اچھے طریقے سے گزر بسر کرو پھر اگر تمہیں وہ ناپسند ہوں تو ہوسکتا ہے کہ کوئی چیز تمہیں ناپسند ہو اور اللہ اس میں بہت بھلائی رکھ دے۔

(سورۃ النساء 19)

جامع ترمذی میں ہے:عن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم أكمل المؤمنين إيمانا أحسنهم خلقا و خياركم لنسائهم خلقا

ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے فرماتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مومنوں میں کامل ایمان والا وہ شخص ہے جو اخلاق میں ان میں سے اچھا ہو اور تم میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جو اپنی بیویوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرتے ہیں “

( جامع ترمذی جلد 1 کتاب النکاح حدیث 1160)

تاریخ الخلفاء میں ہے:عمر بن الخطاب خرج ذات ليلة يطوف بالمدينة وكان يفعل ذلك كثيرا؛ إذ مر بامرأة من نساء العرب مغلقا عليها بابها، وهي تقول:

تطاول هذا الليل تسري كواكبه … وأرقني أن لا ضجيع ألاعبه

فوالله لولا الله تخشى عواقبه … لزحزح من هذا السرير جوانبه

فكتب إلى عماله بالغزو ألا يغيب أحد أكثر من أربعة أشهر.

ترجمہ۔ایک رات حضرت عمر رضی اللہ عنہ حسبِ معمول شہر میں گشت کر رہے تھے کہ اُنہوں نے ایک عورت کی زبان سے اپنے شوہر کی یاد میں اشعار سنے

یہ رات کس قدر لمبی ہو گئی ہے۔ اور اس کے کنارے کس قدر چھوٹے ہو گئے ہیں

اور میں رو رہی ہوں کہ میرا شوہر میرے پاس نہیں ہے کہ اس کے ساتھ ہنس کھیل کر اس رات کو گزار دوں۔

خدا کی قسم خدا کا ڈرنہ ہوتا تو اس تخت کے پائے ہلا دیئے جاتے۔

 تو آپ نے اپنے عمال کی جانب یہ خط لکھ دیا کہ ہر مجاہد چار ماہ سے زائد اپنے گھر والوں سے دور نہ رہے

(تاريخ الخلفاء: صفحہ 112 مکتبہ نزار مصطفی الباز)

ردالمحتار میں ہے:قال فی الفتح اعلم ان ترک جماعھامطلقا لایحل لہ صرح اصحابنا بان جماعھا احیانا واجب دیانۃ لکن لایدخل تحت القضاء والالزام الاالوطأۃ الاولی ولم یقدروافیہ مدۃ، ویجب ان لایبلغ بہ مدۃ الایلاء الا برضاھا وطیب نفسھا بہ اھ ویسقط حقھا بمرۃ فی القضاء

ترجمہ۔فتح القدیر میں فرمایا: واضح ہوکہ بیوی سے جماع مطلقاترک کردینا حلال نہیں، ہمارے اصحاب نے تصریح فرمائی ہے کہ دیانۃ گاہے گاہے بیوی سے جماع کرنا واجب ہے لیکن اس پر قاضی کو کاروائی کا حق نہیں کہ وہ خاوند پر لازم قرار دے تاہم نکاح کے بعد پہلا جماع خاوند پر قاضی لازم کرسکتا ہے اور فقہاء کرام نے اس جماع کے لئے مدت کا تعین نہیں کیا کہ کتنی مدت کے اندر واجب ہے تاہم یہ ضروری ہے کہ یہ وقفہ ایلاء کی مدت (چار ماہ) تک نہ پہنچنے پائے الایہ کہ بیوی کی رضا مندی اور خوش طبعی سے جتنا وقفہ ہو ایک دفعہ جماع کرلینے سے قضاء بیوی کا حق ساقط ہوجائےگا 

(ردالمحتار باب القسم جلد 2 صفحہ 398 داراحیاء التراث العربی بیروت)

فتاوی رضویہ میں ہے:بالجملہ عورت کو نان ونفقہ بھی واجب اور رہنے کو مکان دینا بھی واجب اور گاہ گاہ اس سے جماع کرنا بھی واجب جس میں اسے پریشان نظری نہ پیدا ہو، اور اسے معلقہ کردینا حرام، اور بے اس کے اذن ورضا کے چار مہینے تک ترک جماع بلاعذر صحیح شرعی ناجائز، اور بعد نکاح ایک بار جماع تو بالاجماع بالاتفاق حق زن ہے 

(فتاوی رضویہ جلد 13 صفحہ 446 رضا فاؤنڈیشن)

 فتاوی فیض الرسول میں ہے: زیادہ سے زیادہ چار مہینہ بیوی کو چھوڑ کر اس سے زیادہ شوہر کو دوسرے شہر میں نہیں رہنا چاہئے امام العادلین حضرت عمرفاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے اتنی ہی مدت کا فیصلہ فرمایا ہے.

 (فتاوی فیض الرسول جلد 2 صفحہ 588 شبیر برادرز)

فتاوی یورپ میں ہے:اگر کاروبار یا ملازمت کے سلسلہ میں برضاء طرفین یہ جدائی رہتی ہے تو چاہے جدائی کی مدت اور بڑھ جائے شرعا اس میں کوئی حرج نہیں۔ ہاں چار مہینے سے زیادہ کی جدائی بیوی کے اذن ورضا کے بغیر نہیں ہونی چاہئے کیونکہ بے عذر شرعی یا بے عذر صحیح چارمہینہ تک ترک جماع جائز نہیں ہے۔

(فتاوی یورپ صفحہ 385 شبیر برادرز)

والله اعلم ورسوله عزوجل و صلى الله عليه وسلم

كتبه: محمد نثار عطاری

نظر ثانی۔ابواحمد مفتی محمد انس رضا عطاری