وراثتی مکان میں ایک کمرہ تعمیر کیا تو بعد میں اس کمرہ کی رقم کو بھی تقسیم کیا جائے گا

علمائے دین کی خدمت میں عرض ہے کہ اس بارے میں رہنمائی فرما دیں کہ اگر وراثتی مکان میں ایک وارث نے باہم رضامندی سے اپنے پلے سے ایک کمرہ تعمیر کیا ہوتو بعد میں جب وہ مکان بیچا جائے گا تو اس کمرہ کی رقم کو بھی تقسیم کیا جائے گا؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

سوال میں بیان کردہ صورت میں اس کمرے کی رقم تو اس کمرے کو  تعمیر کرنے والے کی ہی ہوگی البتہ اگر جب جائیداد تقسیم کی جائے وہ کمرہ اسی کے حصے میں آئے تو فبہا اور اگر تقسیمِ جائیداد کے وقت وہ کمرہ یا اس کا کچھ حصہ اس کے حصے میں نہیں آرہا تو باہمی رضا مندی سے وہ یہ کمرہ زمین والے حصہ دار کو بیچ دے یا زمین والا اسے وہ زمین بیچ دے لیکن اگر معاملہ کسی طرح حل نہیں ہورہا تو زمین والے کو اختیار ہوگا کہ سارا کمرہ  یا وہ بعض جو اس کی زمین میں واقع ہوا اسے اکھڑوا دے اور اس کے سبب اگر زمین کو کچھ تھوڑا سا نقصان ہوا ہو تو اس کا تاوان کمرے  والے سے لے لے اور اگر نقصان بہت زیادہ ہو  کہ زمین کو خراب وبیکار کردے تو اسے اختیار ہے کہ اتنی کمرہ کی عمارت جو اس کی زمین میں ہے اپنی ملک ٹھہرالے اگرچہ کمرے کا مالک راضی نہ ہو اور اسے،اس تعمیر کی وہ قیمت دے دے جو اس دن ایسی زمین کی ایسی عمارت کی اس صورت میں بہاؤ طے ہو.

“فتاوی رضویہ” اسی طرح کے ایک سوال کے جواب ميں اعلی حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ اللہ الرحمن فرماتے ہیں :زید وحامد نے زمین مکان مشترک میں جو بنگلے اپنے لئے اپنے روپے سے بنائے وہ خاص انہیں کے ہیں دیگر شرکاء کا ان میں کوئی حق نہیں، اگر باقی شرکاء اب قائم رہنا نہیں چاہتے تومکان وزمیں موروث مشترک تقسیم کریں، اگر بنگلے کی کل زمین بنگلے ہی کے حصہ میں آکر پڑی جب تو نزاع ہی قطع ہوئی اور اگر وہ کل زمین یا اس کا بعض کسی دوسرے شریک کے حصے میں پڑے تو یا باہمی رضامندی سے زمیں والا اپنی زمین بنگلے والے کے ہاتھ بیع کر دے یا بنگلے والا اپنا بنگلہ کل یا بعض زمین والے کے ہاتھ اورکسی طرح تراضی نہ ہوتو زمین والے کو اختیار ہوگا کہ بنگلہ کل یا بعض جس قدر اس کی زمین میں واقع ہوا اکھڑوا دے اور اس کے سبب اگر زمین کو کچھ نقصان قلیل پہنچے اس کا تاوان بنگلہ والے سے لے لے اور اگر نقصان سخت کثیر پہنچے کہ زمین کو خراب وبیکار کردے تو اسے اختیار ہے کہ اس قدر عمارت بنگلہ جو اس کی زمین میں ہے اپنی ملک ٹھہرالے اگرچہ صاحب بنگلہ راضی نہ ہو اور اسے،اس تعمیر کی وہ قیمت دے دے جو روز واپسی زمین ایسی عمارت کا اس حال میں نرخ ہوجبکہ اسکے گرادینے کا حکم ہولیا ہو، اور اس کی معرفت کا طریقہ یہ ہے کہ اگر یہ عمارت گرادی جائے تو جس قدر عملہ ٹوٹ پھوٹ کر بعد گرانے کے نکلے اس کا بھاؤ روز واپسی کیا ہوگا اور گروانے میں کیا مزدوری جائے گی یہ مزدور اس عملہ کے بھاؤ سے گھٹا کر جو بچے وہ اس دن اس عمارت کی قیمت ہے جس کے گرانے کا حکم ہولیا۔

درمختار کتاب القسمۃ میں ہے:بنی احدالشریکین بغیر اذن الاخر(وکذالوباذنہ لنفسہ لانہ مستعیرلحصۃ الاٰخر وللمعیرالرجوع متی شاء رملی علی الاشباہ اھ ش) فی عقار مشترک بینھما فطلب شریکہ رفع بنائہ قسم العقار فان وقع البناء فی نصیب البانی فبہا ونعمت والاھدم البناء (اوارضاہ بدفع قیمۃ ط عن الھندیۃ) وحکم الغرس کذٰلک بزازیۃاھ مزیدا من الشامی۔

مشترکہ جگہ پر ایک شریک نے دوسرے کی اجازت کے بغیرتعمیر کی دوسرے نے وہاں سے عمارت ہٹانے کا مطالبہ کیا تو زمین کو تقسیم کیا جائے، اگر عمارت بنانے والے کے حصہ میں وہ عمارت آئی تو بہتر ورنہ عمارت کو گرایا جائے گا(اس پر علامہ شامی نے یہ اضافہ فرمایا یونہی شریک کی اجازت سے اپنی ذات کے لئے بنائی تو حکم یہی ہے کیونکہ اس نے گویا وہ زمین عاریۃً عمارت کے لئے اپنے شریک سے حاصل کی اور عاریتاً دینے والے کو یہ حق ہوتا ہے کہ وہ جب چاہے واپس لے لے اھ

 رملی علی الاشباہ اور طحطاوی میں ہندیہ سے یوں ہے، یاشریک کو قیمت دے کر راضی کرلے)____اور پودے لگانے کا حکم بھی یہی ہے،بزازیہ.

(درمختار کتاب القسمۃ مطبع مجتبائی دہلی ۲/ ۲۲۱)(ردالمحتار کتاب القسمۃ داراحیاء التراث العربی بیروت ۵/ ۱۷۰)

ردالمحتار میں ہے:اقول : وفی فتاوٰی قارئ الھدایۃ وان وقع البناء فی نصیب الشریک قلع وضمن مانقصت الارض بذٰلک اھ وقد تقدم فی کتاب الغصب متنا ان من بنی او غرس فی ارض غیرہ امر بالقلع وللمالک ان یضمن لہ قیمۃ بناء او غرس امر بقلعہ ان نقصت الارض بہ والظاھر جریان التفصیل ھنا کذٰلک تأمل

میں کہتا ہوں اور فتاوٰی قارئ الھدایہ میں ہے اور اگر عمارت شریک کے حصہ میں بنائی تو ہٹائے اور بنانے والے سے زمین کے نقصان کا ضمان لے اھ، متن کے کتاب الغصب میں پہلے گزر چکا ہے کہ جس نے عمارت یا پودے غیر کی زمین میں لگائے تو اسے ہٹانے کاحکم دیاجائے گا اور مالک کو اختیار ہوگا کہ اگر عمارت گرانے یا پودے اکھاڑنے سے زمین کا جو نقصان ہوا ہوتواس کاضمان لے اور ظاہرہے کہ یہاں وہی تفصیل ہوگی، غورکرواھ

(ردالمحتار کتاب القسمۃ داراحیاء التراث العربی بیروت ۵/ ۱۷۰).

اقول: وکذٰلک تقدم فی کتاب العاریۃ متنا وشرحا حیث قال لو اعار ارضا للبناء والغرس صح ولہ ان یرجع متی شاء ویکلفہ قلعھما الا اذا کان فیہ مضرۃ بالارض فیترکان بالقیمۃ مقلوعین لئلا تتلف ارضہ

اقول: (میں کہتا ہوں) اور یونہی متن اور شرح کی کتاب العاریۃ میں گزرا ہے جہاں فرمایاکہ اگر زمیں عمارت یا پودے لگانے کے لئے عاریۃً دی تو جائز ہے اور اس کو اختیار ہوگا کہ جب چاہے واپس لے لے اور بنانے والے کو ہٹانے پرمجبورکرے، ہاں اگر عمارت گرانے اور پودے اکھاڑنے سے زمین کو نقصان ہو تو دونوں چیزوں کو ان کی اکھاڑی ہوئی صورت کی قیمت کے بدلے بحال رکھا جائے تاکہ مالک کی زمین تلف نہ ہو اھ،

( درمختار کتاب العاریۃ مطبع مجتبائی دہلی ۲/ ۱۵۶)

وھذااعنی بناء احدالشریکین لایخلو عن احدھما اذلوبنی بغیر اذن شریکہ کان غاصبا او بہ لنفسہ کان مستعیرافلاشک فی جریان الحکم المذکور فیھما ھنا ثم ماذکرہ قاری الھدایۃ محلہ مااذاکان النقصان قلیلاغیربالغ حد افساد الارض والتملک محمول علی النقصان الفاحش کما یفیدہ تعلیل الدر بقولہ لئلا تتلف ارضہ وقد نقل المحشی عن السائحانی عن المقدسی فی الغصب تحت قول الدر من بنی اوغرس فی ارض غیربغیر اذنہ امر بالقلع والرد وللمالک ان یضمن لہ قیمۃ بناء او شجر امر بقلعہ ای مستحق القلع ان نقصت الارض بہ۱؎اھ مانصہ ای نقصانا فاحشا بحیث یفسدھا امالونقصھا قلیلا فیأخذارضہ ویقلع الاشجار ویضمن النقصان۲؎اھ فبذا التوفیق یتضح المرام وتزول الاوھام والجدلہ ولی الانعام۔

اور شریکین میں سے ایک کا تعمیر کرنا دو حال سے خالی نہیں کہ بغیر اجازت تعمیر کرے گا تو غاصب ہوگا یا اجازت سے اپنی ذات کے لئے تعمیر کرے گا تو عاریۃً حاصل کرنے والا قرار پائے گا تو بلاشک دونوں صورتوں میں وہاں مذکور حکم ہی جاری ہوگا، پھر قاری الھدایہ نے جو ذکر فرمایا تو اس کا محل وہ صورت ہے جب اکھاڑنے میں نقصان کم ہو جس سے زمین میں فساد پیدا نہ ہو، اور قیمت دے کر مالک بننے کی صورت وہ ہے جب زمین کا نقصان زیادہ ہو جیسا کہ درمختار کا یہ علت بیان کرنا”تاکہ زمین تلف نہ ہو”سے بطور فائدہ معلوم ہورہا ہے، اور غصب کے باب میں محشی نے سائحانی اس نے مقدسی سے درمختار کے قول”جس نے غیر کی زمین میں بغیر اجازت عمارت بنائی یا پودے لگائے تو اسے وہاں سے اکھاڑنے اور زمین واپس کرنے کا حکم دیا جائے گااور مالک کو اختیار ہوگا کہ وہ اکھاڑے ہوئے مکان یا درختوں کی قیمت کا ضامن بن جائے اگر زمین کو نقصان کاخطرہ ہو یعنی اگر نقصان ہوتو اکھاڑنے کا استحقاق ہوگا اھ محشی کی عبارت یہ ہے یعنی ایسا فحش نقصان جو زمین کے فساد کا باعث ہو، لیکن اگر نقصان قلیل ہوتو مالک اپنی زمین واپس لے اور درخت وغیرہ اکھاڑدے اور نقصان کا ضمان لے اھ تو اس بیان سے مذکورہ عبارات میں موافقت ہوگئی، مقصود واضح ہوگیا اور اوہام ختم ہوگئے اور بزرگی نعمت کے مالک کے لئے ہے.

(درمختار کتاب الغصب مطبع مجتبائی دہلی ۲/ ۲۰۷).

نیز شامی میں ہے:ای قیمۃ بناء اوشجر امر بقلعہ اقل من قیمتہ مقلوعا مقداراجرۃ القلع فان کانت قیمۃ المقلوع عشرۃ واجرۃ القلع دراھم بقیت تسعۃ(ملخصاً)

یعنی مکان یا درخت جن کو اکھاڑنے کا حق ہے ان کھاڑے ہوئے کی قیمت سے اکھاڑنے کی مزدوری برابر منہا کرکے بقیہ قیمت دی جائے، مثلاً اگر اکھاڑے ہوئے کی قیمت دس درہم ہو اور مزدوری ایک درہم ہوتو نو درہم قیمت دے گا(ملخصاً)

(ردالمحتار کتاب الغصب داراحیاء التراث العربی بیروت ۵/ ۱۲۴).

خیریہ میں ہے:ان وقع بعضہ فی حصتہ وبعضہ فی حصۃ الاٰخر فما وقع فی حصتہ فامرہ الیہ وما وقع فی حصۃ الاٰخرفلہ ان یکلفہ قلعہ

اگر مکان کا کچھ حصہ اپنی زمین اور کچھ حصہ دوسرے کی زمین میں ہو تو اپنی زمین والا حصہ اس کی صوابدید پر ہے، اور جو حصہ دوسرے کی زمین پر واقع ہے تو دوسرے کو حق ہے کہ وہ اسے گرانے پر مجبور کرے

(الفتاوٰی الخیریہ کتاب القسمۃ دارالمعرفۃ بیروت ۲/۱۶۱)

یہ سب اس صورت میں ہے جبکہ مکان صالح تقسیم ،اور شرکاء تقسیم پر راضی ہوں ورنہ اگر بقیہ شرکاء اس عمارت کو رکھنا نہ چاہیں تو ڈھادینے سے چارہ نہیں۔خیریہ میں ہے:لایخفٰی انہ اذالم یمکن القسمۃ اولم یرضیا بھا تعین الھدی وﷲتعالٰی اعلم۔

یہ مخفی نہیں کہ جب زمین قابل تقسیم نہ ہو یا فریقین تقسیم پر راضی نہ ہوں تو گرائے بغیر چارہ نہ ہوگا۔وﷲ تعالٰی اعلم.

(فتاوی رضویہ ج16 ص102 تا 105مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)

واللہ تعالی اعلم بالصواب والیہ المرجع والمآب

مجیب:ابو معاویہ زاہد بشیر عطاری مدنی

(2 جمادی الاول1443ھ بمطابق  06دسمبر 2021ء بروز پیر شریف)