نیٹ ورک مارکیٹنگ

علمائے دین کی خدمت میں عرض ہے کہ آجکل مارکیٹ میں کئی کمپنیاں مارکیٹنگ والی رائج ہے جن کے مختلف نام ہیں ان کا کام تقریبا ایک جیسا ہوتا ہے کہ پہلے کمپنی کی پروڈکٹ خرید کراس کمپنی کا ممبر بننا ہوتا ہے اس کے بعد آگے جتنے لوگوں کو اس کمپنی سے چیز خرید کروائے گا اس میں کمیش ملے گی اور وہ آگے جو کسی اور کو کروائے گا اس میں سے بھی اسے کمیشن ملے گی۔ اس کی شرعی حیثیت بیان کریں۔

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَاب

  نیٹ ورک کی جو مارکیٹنگ کمپنیاں چل رہی ہیں عمومی طور پر ناجائز ہوتی ہیں کہ ان میں مخصوص  اشیاء خریدنے کی شرط ہوتی ہے  یا اس میں ممبر شپ حاصل کرکے پیسے لیتے ہیں جوکہ شرعا جائز نہیں ہیں اور اس کے ناجائز ہونے کی چند وجوہات ہیں.

(1).کمپنی سے ممبر شپ حاصل کرنے یا دوسرے الفاظ میں عقدِ اجارہ کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ایک مخصوص مقدار میں خریداری کرنا ہوگی  بغیر اس کے کمپنی کوئی کمیشن نہیں دیتی۔ یعنی کمپنی کی طرف سے کام کرنے اور لوگوں کو ممبر بنانے کا جو اجارہ ہے وہ عقدِ بیع( کمپنی سے خریداری) کے ساتھ مشروط ہے اور اجارے میں اس طرح کی خلافِ مقتضائے عقد شرط لگانا شرط فاسد ہے جس سے اجارہ فاسد ہو جاتا ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے۔ اور شروط فاسدہ کو علماء نے سود کے زمرے میں داخل کیا ہے کیونکہ عقد معاوضہ میں بلاعوض ملنے والی زیادتی کو سود کہتے ہیں اور بیع(خریداری) یا اس کی مثل معاملات میں اگر شرط فاسد لگائی جائے تو اس سے بھی ایک ایسی ہی زیادتی یا نفع حاصل ہوتا ہے جس کا عوض کچھ معین نہیں ہوتالہٰذا یہ من جملہ سود ہے۔ اور  یہ بھی واضح رہے کہ خریدار صراحتاً یا لفظاً اگرچہ یہ شرط ذکر نہ بھی کرے تب بھی یہ بیع فاسد ہی ہے کیونکہ عرفاً کمپنی اور خریدار کے درمیان یہ طے ہوتا ہے اور ہر ایک کو معلوم ہوتا ہے کہ ممبر بننے کے لئے ہی یہ چیز خریدی جارہی ہے۔ اگر کمپنی خریداری کے باوجود بھی ممبر نہ بنانے کا اختیار رکھتی ہوتو کوئی بھی کمپنی کی پروڈکٹ نہیں خریدے گا کیونکہ خریداروں کا اصل مقصود تو ممبر شپ حاصل کرنا ہوتا ہے نہ کہ چیز کی خریداری ۔ بہر حال ایسی صورت حال میں ممبر شپ کے حصول کا تذکرہ کرنا یا نہ کرنا دونوں برابر ہے ۔ شریعت مطہرہ کا قاعدہ ہے کہ المعھود عرفا کالمشروط لفظا(یعنی جو عرف کے اعتبار سے معلوم و متعین ہو وہ ایسے ہی ہے جیسے لفظاً مشروط ہو۔)

(2). ناجائز ہونے کی ایک وجہ کمپنی کے کمیشن دینے کا طریقہ کار ہے جو کہ اجارہ کے فقہی قوانین کے خلاف ہے کیونکہ اسلامی اصولوں کے مطابق مزدور یا کام کرنے والے کو اس کی اجرت پوری پوری وقت معین پر دی جانی چاہیے لیکن جو کام کسی نے نہ کیا ہو اس کو لینے کا اسے حق نہیں اور نہ ہی وہ اس کا تقاضا کرسکتا ہے جبکہ اگر کمپنی کے طریقہ کار کو دیکھا جائے تو وہ اس کے خلاف ہے کیونکہ ممبرمثلاً زید جب چار افراد کو تیار کرتا ہے ان پر تو وہ براہ راست محنت کرتا ہے جس کی کمیشن وہ کمپنی سے لے سکتا ہے جبکہ وہ پروڈکٹ خریدنے کے لئے اس کے ساتھ چل کربھی جائے۔لیکن اس کے بعد مذکورہ چار افراد میں ہر ایک جب آگے مختلف افراد کو تیار کرتے ہیں تو کمپنی آگے والے تمام افراد کی کمیشن بھی زید کو دیتی ہے حالانکہ زید نے ان افراد پر کوئی محنت نہیں کی ہوتی تو زید کا آگے والے افراد کی کمیشن لینا جائز نہیں کیونکہ کمیشن یا اجرت کام کرنے ، محنت و مشقت کرنے کی ہوتی ہے جو کام نہ کیا ہو اس کی اجرت نہیں لی جا سکتی حتی کہ علماء فرماتے ہیں اگر کسی شخص نے چند باتیں کرکے ذہن بنادیا یا مشورہ دیا کہ چیز خرید لو،اچھی ہے، تو اس صورت میں بھی اجرت نہیں لے سکتا.

“تنویر الابصار” میں ہے:”تفسد الإجارۃ بالشروط المخالفۃ لمقتضی العقد

 مقتضائے عقد کے خلاف شرائط لگانے سے اجارہ فاسد ہو جاتا ہے۔

(تنویر الابصار مع درمختارو ردالمحتار، کتاب الاجارہ، باب الاجارۃ الفاسدۃ ،جلد6،صفحہ46، دار الفکر، بیروت).

“کنز الدقائق و بحر الرائق” میں ہے :(قولہ یفسد الإجارۃ الشرط) أی الشروط المعھودۃ المتقدمۃ فی باب البیع الفاسد التی لیست من مقتضی العقد

اجارہ شرط لگانے سے فاسد ہو جاتا ہے یعنی ان شرائط فاسدہ سے جو مقتضائے عقد میں سے نہیں ہوتی جن کا بیان باب البیع گزرا ہے۔

(بحر الرائق، کتاب الاجارہ، باب الاجارۃ الفاسدۃ ،جلد7،صفحہ311،دار الکتاب الاسلامی، بیروت).

“المعجم الاوسط للطبرانی” میں ہے : حضرت عمرو بن شعیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں:أن النبی صلی اللہ علیہ وسلم نہی عن بیع وشرط”

کہ نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے خریداری اور شرط سے منع فرمایا ہے ۔

 (المعجم الاوسط للطبرانی، باب العین ، من اسمہ عبد اللہ، جلد4،صفحہ335،مطبوعہ دار الحرمین، قاہرہ).

علامہ زیلعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ”التبیین” میں لکھتے ہیں:کل شرط لا یقتضیہ العقد وھو غیر ملائم لہ ولم یرد الشرع بجوازہ ولم یجز التعامل فیہ وفیہ منفعۃ لأھل الاستحقاق مفسد

ہر وہ شرط جس کا نہ تو عقد تقاضا کررہا ہو، اور وہ عقد کے مناسب بھی نہ ہو ، شرع سے اس کا جواز بھی ثابت نہ ہو ، اور اس پر تعامل بھی نہ ہو اور اس میں اہل استحقاق میں سے کسی ایک کا نفع ہے تو ایسی شرط بیع(خریداری) کو فاسد کر دیتی ہے ۔

(تبیین، کتاب البیع، باب بیع فاسد، جلد4،صفحہ57،دار الکتاب الاسلامی ).

“فتاوی عالمگیری میں ہے:”ولو قال أبیعک ھذا بثلثمائۃ علی أن یخدمنی سنۃ کان فاسدا لأن ھذا بیع شرط فیہ الإجارۃ ” مختصرا

اگر کسی نے کہامیں نے یہ (غلام) تجھے تین سو کے بدلے اس شرط پر فروخت کیا کہ یہ ایک سال تک میری خدمت کرے گا تو یہ بیع فاسد ہے کیونکہ یہ ایسی بیع ہے جس میں اجارہ کی شرط لگائی ہے ۔

(عالمگیری،کتاب البیوع، الباب العاشر، جلد3،صفحہ135، دار الفکر ، بیروت)

“علامہ کاسانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ”البدائع الصنائع” لکھتے ہیں: ”ھذہ الشروط بعضھا فیہ منفعۃ زائدۃ ترجع إلی العاقدین أو إلی غیرھما وزیادۃ منفعۃ مشروطۃ فی عقد البیع تکون ربا والربا حرام والبیع الذی فیہ ربا فاسد” ترجمہ: ان میں کچھ شرائط تو وہ ہیں کہ جن میں عاقدین یا ان کے علاوہ کسی کا نفع پایا جاتا ہے اور نفع کی ایسی زیادتی اگر عقد بیع میں مشروط ہو تو وہ سود ہوتی ہے اور سود حرام ہے ۔ اور جس بیع میں سود پایا جائے وہ بیع فاسد ہو تی ہے۔

(بدائع، کتاب البیوع ، فصل فی شرائظ الصحۃ، جلد5،صفحہ175، دار الکتب العلمیہ، بیروت).

“ردالمحتار” میں ہے : ”الدلالۃ والإشارۃ لیست بعمل یستحق بہ الأجر وإن قال علی سبیل الخصوص بأن قال لرجل بعینہ إن دللتنی علی کذا فلک کذا إن مشی لہ فدلہ فلہ أجر المثل للمشی لأجلہ؛ لأن ذلک عمل یستحق بعقد الإجارۃ ”

محض بتانا اور اشارہ کرنا ایسا عمل نہیں ہے جس پر وہ اجرت کا مستحق ہو، اگر کسی نے ایک خاص شخص کو کہا اگر تو مجھے فلاں چیز پر رہنمائی کرے تو اتنا اجر دوں گا، اگر وہ شخص چل کر رہنمائی کرے تووہ اس چل کر جانے کی وجہ سے اجرت مثل کا مستحق ہوگا کیونکہ چلنا ایسا عمل ہے جس پر عقد اجارہ میں اُجرت کا مستحق ہوتاہے۔

(ردالمحتار،کتاب الاجارۃ،مطلب ضل لہ شیئ، جلد6،صفحہ95، دارالفکر، بیروت )

امام اہلسنت احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمان “فتاوی رضویہ” میں اسی طرح کے ایک سوال کا بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:اگر کارندہ نے اس بارہ میں جو محنت و کوشش کی وہ اپنے آقا کی طرف سے تھی، بائع کے لئے کوئی دوا دوش نہ کی، اگرچہ بعض زبانی باتیں اس کی طرف سے بھی کی ہوں، مثلا آقا کو مشورہ دیا کہ یہ چیز اچھی ہے، خرید لینی چاہیے یا اس میں آپ کا نقصان نہیں اور مجھے اتنے روپے مل جائینگے ، اس نے خرید لی جب تو یہ شخص عمرو بائع سے کسی اجرت کا مستحق نہیں کہ اجرت آنے جانے ، محنت کرنے کی ہوتی ہے، نہ بیٹھے بیٹھے دو چار باتیں کہنے، صلاح بتانے، مشورہ دینے کی۔

(فتاوی رضویہ ،جلد17، صفحہ 453، رضا فاؤنڈیشن ،لاہور).

واللہ تعالی اعلم بالصواب والیہ المرجع والمآب

مجیب:ابو معاویہ زاہد بشیر عطاری مدنی

( 5جمادی الاول1443ھ بمطابق  10دسمبر 2021ء بروز جمعۃ المبارک)