نماز میں رونا کیسا ہے

سوال:  کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ نماز میں رونا کیسا ہے؟

الجواب بعون الملک الوھاب اللہم ھدایۃ الحق والصواب

نماز میں خوف خدا ،عشق الٰہی ، جنت ودوزخ کے ذکر کی وجہ سے رونا اچھا ونیک عمل ہے بلکہ احادیث مبارکہ  سے ثابت ہے۔البتہ اگر کوئی مصبیت یا کسی تکلیف کی وجہ سے روتا ہے اور آواز پیدا ہوئی حروف نکلتے ہیں مثلاً آہ، اوہ، اُف، تف  تو  اب نماز  ٹوٹ جائے گی۔

سنن نسائی ،ابو داود اور  ومشکاۃ میں ہے :وللفظ للنسائی عن مطرف، عن أبيه، قال: «أتيت النبي صلى الله عليه وسلم وهو يصلي، ولجوفه أزيز كأزيز المرجل» يعني يبكي یعنی  حضرت سَیِّدُنَا مطرف رحمۃ اللہ علیہ اپنے والد ( سیدناعبد اللہ  بن شخیررضی اللہ عنہ)سے راوی وہ فرماتے ہیں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا آپ نماز پڑھ رہے تھے اور آپ کے پیٹ میں ہانڈی کی سی کھولن تھی یعنی رو رہے تھے۔

(مشكاة المصابيح 1 / 316)(  السنن الكبرى للنسائي 10 / 387)

کنزالعمال میں ہے:عن عبد الله بن السائب قال: أخر عمر بن الخطاب العشاء الآخرة فصليت ودخل وكان في ظهري فقرأت {والذاريات} حتى أتيت على قوله: {وفي السماء رزقكم وما توعدون} فرفع صوته ۔حضرت سیدنا عبداللہ بن سائب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ایک بار امیر المؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کو کسی سبب سے نماز عشا میں تاخیر ہوگئی تو میں نے نماز عشا کی امامت کروائی، آپ بعد میں تشریف لے آئے اور نماز میں شامل ہو گئے۔ میں نے سورۃ الذاریات کی تلاوت کی اور جب میں اس آیت مبارکہ (آیت نمبر 22) پر پہنچا

وفي السماء رزقكم وماتوعدون ترجمہ کنزالایمان: اور آسان میں تمہارا رزق ہے اور جو تمہیں وعدہ دیا جاتا ہے ۔تو سید نافاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ بلند آواز سے رونے لگے۔

(کنز العمال جلد 12 صفحہ 574 مؤسسۃ الرسالہ)

شارح بخاری حضرت علامہ ملا  علی قاری  علیہ الرحمہ ” مرقاۃ “میں ” شرح منیہ“ کے حوالے سے فرماتے ہیں :  وفي شرح المنية: إذا بكى فيها وحصل منه صوت مسموع فإن كان من ذكر الجنة أو النار أو نحوهما لم يقطعهما ; لأنه بمنزلة الدعاء بالرحمة والعفو، وإن كان من وجع أو مصيبة يقطعها ; لأنه بمنزلة الشكاية فكأنه قال: بي وجع، أو أصابتني مصيبة، وهو من كلام الناس فيفسد۔یعنی  ’’جب کوئی نماز میں روئے اور وہ آواز ایسی ہو کہ جس کو سنا جا سکتا ہو اگر یہ آواز جنت و دوزخ کاذکر سن کر نکلی تو نماز کو باطل نہیں کرے گی کیونکہ ایسی صورت میں یہ آواز بمنزلہ دعا ، طلبِ رحمت اور معافی مانگنے کے ہے اور اگر وہ آواز کسی درد یا مصیبت کی وجہ سے ہو تو نماز کو باطل کر دے گی کیونکہ اب یہ رونا بمنزلہ شکایت کے ہے گو یا کہ وہ کہہ رہا ہے مجھے تکلیف ہے یا مجھے کوئی مصیبت پہنچی اور یہ لوگوں کا کلا م ہے جو کہ نماز کو فاسد کر دیتا ہے ۔ ‘‘

( مرقاۃ المفاتیح ، ج 2 ص291 ، تحت الحدیث : 1000 ۔ دارالفکر بیروت )

درمختار میں ہے:”والبکاء بصوت يحصل به حرف لوجع او مصيبة۔۔۔۔۔۔۔۔ لالذكر جنة اونار فلو اعجبته قراة الامام فجعل يبكي ويقول بلي اونعم اواري لاتفسد (سراجية )لدلالته علي الخشوع” یعنی  تکلیف یا درد کی وجہ سے آواز سے رویا اور حرف(آہ، اوہ) پیدا ہوئے تو نماز فاسد ہو جائے گی  جنت ، جہنم کے تذکرے یا قرآن کی تلاوت کے وقت رویا اور زبان سے نعم ، بلی کے الفاظ نکلے تو نماز فاسد نہیں ہوگی۔

(الدرمختار مع ردالمحتار ج 2 ص 456 دارالمعرفۃ بیروت )

فتاوی ھندیہ میں ہے:ولو أنّ في صلاته أو تأوه أو بكى فارتفع بكاؤه فحصل له حروف فإن كان من ذكر الجنة أو النار فصلاته تامة وإن كان من وجع أو مصيبة فسدت صلاته ولو تأوه لكثرة الذنوب لايقطع الصلاة ولو بكى في صلاته۔اگر نماز میں بلند آواز سے رویا اور اس سے آہ ، اوہ کے الفاظ پیدا ہوئے اگر تو جنت یا جہنم کے تذکرہ کے وقت ایسا ہوا تو نماز درست ہے اور اگر کسی تکلیف یا دنیاوی مصیبت کی وجہ سے رویا اور الفاظ پیدا ہوئے تو نماز فاسد ہو جائے گی۔

 (فتاوی ھندیہ جلد 1 صفحہ 101 دارالفکر بیروت)

بہار شریعت میں ہے:آہ، اوہ، اُف، تف یہ الفاظ درد یا مصیبت کی وجہ سے نکلے یا آواز سے رویا اور حرف پیدا ہوئے، ان سب صورتوں میں نماز جاتی رہی اور اگر رونے میں صرف آنسو نکلے آواز و حروف نہیں نکلے، تو حرج نہیں،۔جنت و دوزخ کی یاد میں اگر یہ الفاظ کہے، تو نماز فاسد نہ ہوئی۔

( بہارشریعت ج 1  ص 612 مکتبۃ المدینہ)

مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ رونا خوف خدایا عشق الٰہی  میں تھا یا اپنی امت کی شفاعت میں جیسا کہ بعض روایات میں ہے کہ حضور علیہ السلام تہجد پڑھ رہے تھے اور آیت اِنْ تُعَذِّبُہَمْالخ بار بار پڑھتے تھے اور روتے تھے یہ رونا رب تعالٰی کو بہت پیارا ہے،اب بھی جو نمازی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق یا خدا کے خوف سے نماز میں روئے تو نماز بڑی مقبول ہوتی ہے خصوصًا نماز تہجد،ہاں دنیوی تکلیف سے نماز میں رونا منع ہے ۔

(مرآۃ المناجیح ج02ص225 )

کتبہ :احسان احمد قادری۔

نظر ثانی :مفتی ابواحمد محمد انس قادری صاحب دام ظلہ