منت مانی تھی کہ ایک کتاب تقسیم کروں گی اب وہ پیسے ٹیلی تھون میں دے سکتے ہیں

سوال: کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ عرفی منت مانی تھی کہ ایک کتاب تقسیم کروں گی اب وہ پیسے ٹیلی تھون میں دے سکتے ہیں؟

الجواب بعون الملک الوهاب اللهم هداية الحق والصواب۔

کتاب تقسیم کرنے کی منت ایسی منت نہیں جس کو پورا کرنا واجب ہے بلکہ یہ عرفی منت ہے جس کا پورا کرنا جائز و مستحب ہوتا ہے۔ اگر اس کے خلاف عمل کیا اور وہی پیسے ٹیلی تھون میں دے دیے تو جائز ہے لیکن بہتر یہ ہے کہ کچھ رقم کتاب کی تقسیم میں خرچ کردیں اور کچھ ٹیلی تھون میں دے دیں۔

تفسیر احمدیہ میں ہے:نذرِ عرفی  کے جائز   ہونے کے متعلق اللہ پاک کے اس فرمان : ﴿وَمَا اُہِلَّ بِہٖ لِغَیْرِ اللّٰہ ﴾کے تحت تفسیراتِ احمدیہ میں ہے:”ومن ھھنا علم ان البقرۃ المنذرۃ للاولیاء کما ھو الرسم فی زماننا حلال طیب “ ترجمہ:اور یہاں سے معلوم ہوا کہ جس  گائے کی نذر اولیائے کرام کے لیے مانی جائے،  وہ حلال و طیب ہے ،   جیسا کہ ہمارے زمانہ میں رائج ہے ۔‘‘

 (تفسیراتِ احمدیہ ،سورۃ البقرۃ ،صفحہ 45 ،مطبوعہ کوئٹہ )

مشکاۃ المصابیح میں ہے:  یَا رَسُوْلَ اللہِ اِنِّی کُنْتُ نَذَرْتُ اِنْ رَدَّکَ اللہُ صَالِحًا اَنْ اَضْرِبَ بَیْنَ یَدَیْکَ بِالدُّفِ وَاَتَغَنّٰی بِہٖ فَقَالَ لَہَا رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنْ کُنْتِ نَذَرْتِ فَاضْرِ بِیْ وَاِلَّا فَـلَا ۔ 

(مشکاۃ المصابیح،کتاب المناقب،باب مناقب عمر رضی اللہ عنہ،الحدیث۶۰۴۸، المجلدالثانی،ص۴۱۹،دارالکتب العلمیۃ بیروت)

    حضور میں نے منت مانی تھی کہ اگر اللہ عزوجل آپ کو بخیر یت واپس لائے تو میں آپ کے سامنے دف بجاؤں اور گاؤں،سرکار صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے فرمایا : اگر تم نے نذرمانی ہے تو بجاؤ ورنہ نہیں۔

    اس حدیث میں لفظ نذر اسی نذرانہ کے معنی میں ہے نہ کہ شرعی نذرکیونکہ گانا بجانا عبادت نہیں صرف اپنے سرور وخوشی کا نذرانہ پیش کرنا مقصود تھا جو سرکار میں قبول فرمایا گیا ۔ یہ عرفی نذر ہے جو ایک صحابیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا مانتی ہیں اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اس کے پورے کرنے کا حکم دیتے ہیں ۔

    اسی مشکوۃ کے حاشیہ میں بحوالہ ملا علی قاری ہے وان کان السرور بمقدمہ الشریف نفسہ قربۃ. 

(مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح،کتاب مناقب والفضائل، باب مناقب عمر رضی اللہ عنہ،تحت الحدیث۶۰۴۸،ج۱۰، ص۴۰۳،دارالفکربیروت) (علم القرآن)

 اولیاء اللہ کے نام کی جو نذر مانی جاتی ہے اسے نذرِ (عرفی اور) لغوی کہتے ہیں اس کامعنی نذرانہ ہے جیسے کوئی شاگرد اپنے استاد سے کہے کہ یہ آپ کی نذرہے یہ بالکل جائز ہے یہ بندوں کی ہوسکتی ہے مگر اس کا پورا کرنا شرعاً واجب نہیں مثلاً گیارہویں شریف کی نذر اور فاتحہ بزرگان دین وغیرہ۔

 (ماخوذ از جاء الحق، ص314)

 بحرالرائق میں ہے  :”أن قال يا اللہ إني نذرت لك إن شفيت مريضي، أو رددت غائبي أو قضيت حاجتي أن أطعم الفقراء الذين بباب السيدة نفيسة، أو الفقراء الذين بباب الإمام الشافعي، أو الإمام الليث، أو أشتري حصیرا لمساجدهم، أو زيتا لوقودها أو دراهم لمن يقوم بشعائرها إلى غير ذلك مما يكون فيه نفع للفقراء والنذر للہ عز وجل وذكر الشيخ إنما هو محل لصرف النذر لمستحقيه الفاطنين برباطه، أو مسجده، أو جامعه فيجوز بهذا الاعتبار إذ مصرف النذر الفقراء وقد وجد المصرف “ ترجمہ :(اگر کسی نے)  اس طرح نذر مانی کہ  اے اللہ !میں تیرے لیے نذر مانتا ہوں  کہ اگر تو میرے اس مریض کو شفا عطا فرما دے  یا میرےگم شدہ عزیز کو لوٹا دے یا میری فلاں حاجت پوری ہوجائے ،تو میں سیّدہ نفیسہ  یا امامِ شافعی یا امام لیث  علھیم الرحمۃ کے مزار کے فقراء کو کھانا کھلاؤں گا یا ان بزرگوں کی مساجدکے لیے  چٹائیاں خرید کر دوں گا یا وہاں کے چراغ جلانے کے لیے تیل دوں گا یا وہاں کے خادمین کو دراہم دوں گا وغیرہ  ،تو اس میں فقراء کا نفع ہے  اور نذر اللہ پاک کے لیے ہے اور شیخ کا ذکر اس لیے کیا گیا کہ یہ نذر کے صَرف ہونے کا  محل ہیں یعنی  ان کے جامعہ یا مسجد یا سرائے کے مستحق خادمین  کے اوپر وہ نذر خرچ ہوگی ،تو اس طرح منت ماننا جائز ہے  ،اس لیے کہ نذر کا مصرف فقراء ہیں اور وہ مصرف  پایا گیا ۔

(بحرالرائق ، کتاب الصوم ،باب الاعتکاف ،جلد  2 ،صفحہ 521 ،مطبوعہ کوئٹہ)

واللہ تعالی اعلم و رسولہ اعلم

کتبه: سید کریم مدنی

نظر ثانی: ابو احمد مفتی محمد انس قادری صاحب۔

تاریخ: 13نومبر 2021 عیسوی مطابق  7 ربیع الاخر 1443ھ