مسجد کے چندے سے میت کے پاس بیٹھنے کے لیے کرسیاں بنا سکتے ہیں

سوال نمبر 43:کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ کیا مسجد کے چندے سے میت کے پاس بیٹھنے کے لیے کرسیاں بنا سکتے ہیں تاکہ محلے میں کوئی فوتگی ہو تو فی سبیل اللہ وہ کرسیاں دی جائیں؟

الجواب بعون الملک الوهاب اللهم هداية الحق والصواب

مسجد کا چندہ شرعا ان کاموں میں خرچ کرنے کی اجازت ہوتی ہے جس کا وہاں پر عرف (رواج) ہوتا ہے، مثلا امام، موذن اور خادم کی تنخواہیں، یوٹیلیٹی بلز، تعمیرات، عمارت مسجد یا اسکی اشیاء کی ضرورتا مرمت، ضرورت مسجد کی چیزیں، صفائی ستھرائی میں ہونے والے اخراجات وغیرہ۔مسجد کے چندے سے جنازے کے لئے کرسیاں خریدنے کا عرف نہیں ہے لہذا ایسا کرنا جائز نہیں۔بالفرض جواز کی کوئی صورت بنے بھی مثلا کسی نے خود اس کام کے لئے چندہ دینا چاہا یا چندہ لیتے وقت کسی سے صراحتا اجازت لے لی تو چونکہ یہ کرسیاں مسجد میں رکھی جائیں گی جس سے مسجد کی جگہ گھرے گی اور یہ مسجد کی جگہ کو غیر مصرف میں استعمال کرنا ہے لہذا اس وجہ سے بھی اس کی اجازت نہیں ہے۔

فتاوی رضویہ میں ہے:”اگر اس نے صرف تعمیر مسجد کے لئے وقف کی تو مرمت شکست و ریخت کے سوا مسجد کے لوٹے چٹائی میں بھی صرف نہیں کرسکتے افطاری وغیرہ درکنار، اور اگر مسجد کے مصارف رائجہ فی المساجد کے لئے وقف ہے تو بقدر معہود و شیرینی و روشنی ختم میں صرف جائز افطاری ومدرسہ میں ناجائز۔ نہ اسے تنخواہ مدرسین وغیرہ میں صرف کرسکتے ہیں کہ یہ اشیاء مصارف مسجد سے نہیں ولا یجوز احداث مرتبۃ فی الواقف فضلا عن الاجنبی (جب خود واقف کےلئے کسی نئی چیز کا احداث وقف میں جائز نہیں تو محض اجنبی شخص کیلئے کیسے ہوسکتا ہے۔) اور اگر اس نے ان چیزوں کی بھی صراحۃ اجازت شرائط وقف میں رکھی یا مصارف خیر کی تعمیم کردی یا یوں کہا کہ دیگر مصارف خیر حسب صوابدید متولی، تو ان میں بھی مطلقا یا حسب صوابدید متولی صرف ہوسکے گا۔ غرض ہر طرح اس کے شرائط کا اتباع کیا جائے گا اور اگر شرائط معلوم نہیں تو اس کے متولیوں کا قدیم سے جو عملدرآمد رہا اس پر نظر ہوگی اگر ہمیشہ سے افطاری وشیرینی و روشنی ختم کل یا بعض میں صرف ہوتا رہا اس میں اب بھی ہوگا ورنہ اصلا نہیں اور احداث مدرسہ بالکل ناجائز۔۔۔۔۔۔۔قدیم سے ہونے کے یہ معنی کہ اس کا حدوث معلوم نہ ہو اور اگر معلوم ہے کہ یہ بلا شرط بعد کو حادث ہوا تو قدیم نہیں اگرچہ سوبرس سے ہو اگرچہ نہ معلوم ہو کہ کب سے ہے۔

(فتاوی رضویہ،جلد16،صفحہ 485،486،رضا فاؤنڈیشن لاہور)

وقار الفتاوی میں ہے:”جن لوگوں نے مسجد کے مصارف کے لئے چندہ دیا تھا،اس فنڈ سے یہ تمام چیزیں(ڈیکوریشن کا سامان) جائز نہیں تھیں،خاص ان چیزوں کے لئے لوگوں سے چندہ لے کر اگر خریدی جائیں تو سوال مذکور میں یہ تمام امور درست ہوتے۔

(وقار الفتاوی،جلد 2،صفحہ 327،بزم وقار الدین،کراچی)

مفتی قاسم قادری صاحب اپنی کتاب وقف کے مسائل میں لکھتے ہیں:”مسجد کی رقم سے جنازہ کی چارپائی یا تخت بنانا جائز نہیں کہ مسجد کے چندے کا عرف یہ نہیں کہ اسے جنازے کی چارپائی وغیرہ میں استعمال کیا جائے اور چندہ کو عرف کے مطابق خرچ کرنے کا حکم ہے۔

(وقف کے مسائل،صفحہ 229،مکتبہ اہلسنت)

امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ اپنی کتاب چندے کے بارے میں سوال جواب میں مسجد کے چندے سے چراغاں کرنے کے حوالے سے جوابا تحریر فرماتے ہیں:”اگر چندہ دینے والوں کی صراحۃ یا دلالۃ اجازت ہو تو کرسکتے ہیں ورنہ نہیں۔صراحۃ سے مراد یہ ہے کہ مسجد کے لیے چندہ لیتے وقت کہہ دیا کہ ہم آپ کے چندے سے جشن ولادت اور گیارھویں شریف، شب براء ت وغیرہ بڑی راتوں کے مواقع پر نیز رمضان المبارک میں مسجد میں روشنی بھی کریں گے اور اس نے اجازت دےدی۔ دلالۃ یہ ہے کہ چندہ دینے والے کو معلوم ہے کہ اس مسجد پر جشن ولادت اور دیگر بڑی راتوں کے مواقع پر اور رمضان المبارک میں چراغاں ہوتا ہے اور اس میں مسجد ہی کا چندہ استعمال کیا جاتا ہے۔ عافیت اسی میں ہے کہ چراغاں وغیرہ کے لیے الگ سے چندہ کیا جائے ،جتنا چندہ ہوجائے اسی سے چراغاں کر لیا جائے اور چراغاں میں جو کچھ بجلی خرچ ہوئی اُس کے پیسے بھی اُسی سے ادا کیے جائیں۔”

( چندے کے بارے میں سوال جواب ،صفحہ 20، مکتبۃ المدینہ ،کراچی )

بہار شریعت میں ہے:”(مسجد کی) کسی چھوٹی سے چھوٹی چیز کو بے موقع و بے محل استعمال کرنا ناجائز ہے۔

(بہار شریعت،جلد 2،حصہ 10،صفحہ 562،مکتبۃ المدینہ)

واللہ اعلم عزوجل و رسولہ اعلم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

کتبہ : ابو بنتین محمد فراز عطاری مدنی بن محمد اسماعیل

ابو احمد مفتی انس رضا قادری دامت برکاتہم العالیہ

( مورخہ 7 دسمبر 2021 بمطابق 2 جمادی الاول،1443ھ بروز منگل)