درزی کے پاس کپڑے امانت ہوتے ہیں

سوال : میری کپڑے سلائی کرنے  کی دوکان ہےبعض لوگ کپڑے دے جاتے ہیں ہم انہیں سلائی بھی کردیتے ہیں لیکن وہ لینے نہیں آتے اب کیا ہم ان کپڑوں کو بیچ کر اپنی مزدوری پوری کرسکتے ہیں ؟

الجواب بعون الملک الوهاب اللهم هداية الحق والصواب

 درزی کے پاس کپڑے امانت ہوتے ہیں اور اس کا حکم یہ ہے کہ جب مالک غائب ہو اور اسکی زندگی موت کا پتا نہ ہو تو اس کی  چیز کی حفاظت کی جائے ،اگر مالک کے فوت ہونے کا پتا چلے اور اس کا وارث بھی معلوم ہو تو اسے دے دی جائے،اسے بیچنے یا صدقہ کرنے  کی ہر گز اجازت نہیں،نیز اسے اپنی اجرت میں شمار کرنا بھی جائز نہیں کیونکہ درزی اجرت  کا مستحق تب ہوتا ہے جب کپڑوں  کو مالک کو سپرد کر دے،لہٰذا جب تک مالک نہ آجائے اور وہ کپڑےاسے دے نہ دیں تب تک  کچھ وصول نہیں کر سکتے ۔

بہار شریعت میں ہے:اجیر مشترک جسے اجیر عام بھی کہتے ہیں جیسے درزی، دھوبی کہ یہ سبھی کے کپڑے سیتے اور دھوتے ہیں کسی کے نوکر نہیں کام کریں گے تو مزدوری پائیں گے ورنہ نہیں۔     

(بہار شریعت  جلد 2،حصہ 12،صفحہ 945،مطبوعہ مکتبۃالمدینہ )

اسی میں ہے :اجیر مشترک کے پاس چیز امانت ہوتی ہے۔

(بہار شریعت جلد3، حصہ 14،صفحہ 156،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)

مزید فرماتے ہیں:اجیر مشترک اُجرت کا اُس وقت مستحق ہے جب کام کرچکے مثلاًدرزی نے کپڑے کے سینے میں سارا وقت صرف کردیا مگر کپڑا سی کر طیار نہیں کیا یا اپنے مکان پر سینے کے لیے تم نے اُسے مقرر کیا تھا دن بھر تمھارے یہاں رہامگر کپڑا نہیں سیا اُجرت کا مستحق نہیں ہے۔

  (بہار شریعت جلد3، حصہ 14،صفحہ 155،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)

فتاوی عالمگیری میں ہے :غاب المودع ولاید ری حیاتہ ولا مماتہ یحفظھا ابدا حتی یعلم بموتہ وورثتہ ۔۔ ولایتصدقہ بخلاف اللقطۃ :ترجمہ :مودع  (مال کا مالک)غائب  ہو گیا  اور    موت یا زندہ رہنے کا پتہ نہیں  تو اس کا مال محفوظ رکھا جائے گا حتی  کہ اس کا مرنا اور وارث معلوم ہوجائے  ۔اور ودیعت کو صدقہ نہیں   کیا    جا سکتا  بر خلاف لقطہ کے ۔

     (فتاوی عالمگیری  جلد4،صفحہ 354،مطبوعہ  کوئٹہ )

محمدایوب عطاری               

08 ربیع الآخر  1443 ھ/14 نومبر  2021 ء

نظر ثانی  :محمد انس رضا قادری