ایسا کتا جو گھر کے پالتو جانوروں کو ایذا دیتا ہو یا کھا جاتا ہو، اسے مارنا کیسا ہے؟

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ایسا کتا جو گھر کے پالتو جانوروں(جیسے مرغی اور بطخ وغیرہ) کو ایذا دیتا ہو یا کھا جاتا ہو، اسے مارنا کیسا ہے؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

پوچھی گئی صورت کا حکم یہ ہے کہ ایسا کتا جو گھر کے پالتو جانوروں کو ایذا دیتا ہو یا کھا جاتا ہو تو اسے مارنا جائز ہے اسکی مزید تفصیل یہ ہے کہ جو جانور اور حشرات الارض موذی ہوں اور انسانوں کے لیے تکلیف اور نقصان کا باعث ہوں اور ان کے نقصان و ضرر سے بچنے کی ان کو مارنے کے علاوہ اور کوئی صورت باقی نہ ہو مثلا جنگل وغیرہ میں لیجانے یا کسی جگہ چھوڑنے سے بھی ان کی ایذا سے بچنا ممکن نہ ہو تو انہیں کسی تیز چھری سے ذبح بھی کر سکتے ہیں،  بہر صورت موذی جانور ہوں یا حشرات الارض ان کو مارنے میں ایسا طریقہ اختیار کرنا چاہیے کہ انہیں تکلیف کم سے کم ہو۔

صحیح مسلم میں ہے:“عن نافع  قال عبد الله  سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: “خمس من الدواب  لا جناح علی من قتلهن في قتلهن: الغراب والحدأة والعقرب والفأرة والكلب العقور.”

ترجمہ: حضرت نافع رضی الله تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عبد الله رضی الله تعالیٰ عنہ نے کہا کہ میں نے نبی پاک صلى الله تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کو پانچ حیوان ایسے ہیں کہ جنہیں قتل کرنے والے پر کوئی گناہ نہیں، (وہ پانچ حیوان یہ ہیں) کوا، چیل، بچھو، چوہا، کٹ کھنا کتا۔

(صحیح مسلم،كتاب الحج،باب مايندب للمحرم وغيره قتله من الدواب في الحل والحرم، ج:1، ص:382، ط:قديمى كتب خانه)

اکمال المعلم شرح صحیح مسلم میں ہے:“وقيل: بل المراد بتعيين هذه الخمسة التنبيه على ما شابهها في الأذى، وقاسوا سائر السباع على الكلب العقور، وسائر ما يتصدى للافتراس من السباع، وعلى الحدأة والغراب ما في معناهما، وإنما خص لقربهما من الناس، ولو وجد ذلك من الرخم والنسور لكانت مثلها، وكذلك نبه بالفأرة على ما ضرره مثلها وأشذ منها كالوزغ، وكذلك نبه بالعقرب على الزنبور، وبالحية والأفعى على أشباهها من ذوات السموم والمهلكات.”

ترجمہ: بعض علما نے فرمایا ہے کہ ان پانچ حیوانات کی تعین کے ذریعے ان حیوانوں پر تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ جو تکلیف دینے میں ان کے مشابہ ہیں اور علمائے کرام نے تمام درندوں اور چیر پھاڑ کرنے والے جانوروں کو کٹ کھنا کتے پر قیاس کیا ہے، چیل اور کوے پر ان پرندوں کو قیاس کیا ہے کہ جن میں ان دو کی صفات پائی جاتی ہیں.

اور ان حیوانوں کے لوگوں سے قریب ہونے کی وجہ سے انہی حیوانوں کو خاص کیا گیا ہے. اور اگر یہ تکلیف گدھ میں پائی جائے تو اس کا بھی حکم انہی جیسا ہوگا اور اسی طرح چوہے کے ذریعے ان حشرات الارض پر تنبیہ کی گئی ہے کہ جن کا ضرر اس کی مثل ہو اور اس سے کم ہو جیسے کہ نیولا اور اسی طرح بچھو کے ذریعے بھڑ پر تنبیہ کی گئی ہے اور سانپ  کے ذریعے ان زہریلے اور مہلک حشرات الارض پر تنبیہ کی گئی ہے کہ جو ضرر پہنچانے میں ان کے مشابہ ہیں۔

(كتاب الحج،باب مايندب للمحرم وغيره قتله من الدواب في الحل والحرم، ج:4، ص:108، ط:دارالکتب العلمیۃ)

درمختار مع ردالمحتار میں ہے:“( وجاز قتل ما يضر منها ككلب عقور وهرة) تضر (ويذبحها) أي الهرة (ذبحًا) ولايضر بها؛ لأنه لايفيد، ولايحرقها وفي المبتغي: يكره إحراق جراد وقمل وعقرب،(قوله: وهرة تضر) كما إذا كانت تأكل الحمام والدجاج زيلعي (قوله ويذبحها) الظاهر أن الكلب مثلها تأمل (قوله يكره إحراق جراد) أي تحريما ومثل القمل البرغوث ومثل العقرب الحية”۔

ترجمہ: اور نقصان پہنچانے والے جانور جیسے کاٹنے والا کتا اور بلی کو قتل کرنا جائز ہے، اور بلی کو تکلیف دیئے بغیر ذبح کیا جائے گا اس لئے کہ اسے تکلیف دینے میں کوئی فائدہ نہیں لیکن ان جانوروں کو آگ میں جلا نہیں سکتے، مبتغی میں ہے ٹڈی، جوں، اور بچھو کو جلانا مکروہ ہے،  مصنف کا قول

 “نقصان پہنچانے والی بلی” جیسے کہ وہ بلی جو کبوتر اور مرغی کھاتی ہو زیلعی، مصنف کے قول “بلی کو ذبح کیا جائے گا” کا ظاہر یہ ہے کہ کتا اس حکم میں بلی کے مثل ہے مزید غور فرمالیں، مصنف کا قول “ٹڈی کو جلانا مکروہ” یعنی مکروہ تحریمی ہے اور پسو جوں کی مثل ہے اور سانپ بچھو کی مثل ہے۔

(ردالمحتار، مسائل شتی، ج6، ص752، دارالکفر، بیروت)

 فتاوی ہندیہ میں ہے:الْهِرَّةُ إذَا كَانَتْ مُؤْذِيَةً لَا تُضْرَبُ وَلَا تُعْرَكُ أُذُنُهَا بَلْ تُذْبَحُ بِسِكِّينٍ حَادٍّ كَذَا فِي الْوَجِيزِ لِلْكَرْدَرِيِّ۔

ترجمہ: ضرر پہنچانے والی بلی کو مارا نہیں جائے گا اور اسکے سینگ بھی نہیں توڑے جائیں گے بلکہ تیز چھری کے ذریعے ذبح کردیا جائے،  اسی طرح وجیز للکردری میں ہے۔

 (الفتاوى الهندية، جلد5، ص361، دار الفکر بیروت)

اکمال المعلم بفوائد مسلم میں ہے:قال النبي صلي الله عليه وسلم: ان الله كتب الاحسان علي كل شيءٍ فاذا قتلتم فاحسنوا القتلة، واذا ذبحتم فاحسنوا الذبحة، وليحد احدكم شفرته، وليرح ذبيحته۔

ترجمہ: نبی کریم صلي الله تعالیٰ عليه وآلہ وسلم نے فرمایا کہ الله پاک نے  ہر چیز پر احسان کرنے کو لازم کیا ہے،  پس جب تم قتل کرو تو اچھے طریقے سے قتل کرو اور جب تم ذبح کرو تو اچھے طریقے سے ذبح کرو اور تمہیں چاہیے کہ  اپنی چھری تیز کرلو اور اپنے جانور کو راحت پہنچاؤ۔

(اکمال المعلم بفوائد مسلم، كتاب الصيد والذبائح۔۔۔ الخ، باب الأمر بإحسان الذبح والقتل، وتحديد الشفرة،  جلد6،ص 395، حدیث: 1955، دار الوفاء للطباعة والنشر والتوزيع )

موذی جانور کی ایذا سے بچنے کیلئے اسے شکار کرنے کا حکم بیان کرتے ہوئے صدر الشریعہ علیہ الرحمہ “بہار شریعت” میں لکھتے ہیں: کسی غرض صحیح سے شکار کرنا جائز ہے مثلاً اس کی کھال یا بال کو کام میں   لانا مقصود ہے یا وہ موذی جانور ہے اُس کے ایذا سے بچنا مقصود ہے۔

(بہار شریعت، شکار کا بیان،  جلد1، ص680، مطبوعہ مکتبہ المدینہ)

خبیث و موذی جانوروں کو عام مقامات پر مارنے کی اجازت تو ہے ہی فقہائے کرام نے حرم میں اور حالت احرام میں بھی مارنے کی اجازت دی ہے جیسا کہ “بہار شریعت” میں لکھا ہے:یہ باتیں احرام میں جائز ہیں۔۔۔:

 (34) چیل، (35) کوا، (36) چوہا، (37) گرگٹ، (38) چھپکلی، (39) سانپ، (40) بچھو،(41) کھٹمل، (42) مچھر، (43) پِسُّو، (44) مکھی وغیرہ خبیث و موذی جانوروں کا مارنا اگرچہ حرم میں  ہو۔

(بہار شریعت، جلد1، ص1080۔1081، مطبوعہ مکتبہ المدینہ)

واللّٰه تعالی اعلم بالصواب۔

کتبه: ندیم عطاری مدنی حنفی۔

نظر ثانی: ابو احمد مفتی انس رضا قادری۔

مورخہ 18 ربیع الثانی 1443ھ بمطابق 24 نومبر،2021ء،بروز بدھ