انبیائے کرام  علیہم الصلاۃ والسلام  کے علاوہ پر مستقلا درد وسلام

سوال :کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کہتے ہیں ان کے نام کے ساتھ رضی اللہ عنہ نہیں لگتا جیسے امام حسین رضی اللہ عنہ کے نام کے ساتھ لگتا ہے ؟

الجواب بعون الملک الوہاب اللہم ہدایۃ الحق والصواب

علیہ السلام ۔ یہ کلمات  انبیا ئے  کرام  اور فرشتوں کے ناموں کے علاوہ  کسی کے نام کے ساتھ مستقل طور پر (یعنی اس نام سے  پہلے  کسی نبی یا فرشتے   پر سلام بھیجے بغیر ) کہنا جائز نہیں    ،کیونکہ یہ انبیا ئے کرام  علیہم السلام اور فرشتوں  کے ساتھ خاص ہے ۔

لہذا  حضرت سیدنا امام مہدی رضی اللہ عنہ کے نام مبارک  ساتھ بھی  علیہ السلام کہنا جائز نہیں  بلکہ رضی اللہ عنہ یا رحمۃ اللہ علیہ کہنا چاہیے   ۔

مصنف ابن ابی شیبہ میں  ہے : عن ابن عباس، قال: «ما أعلم الصلاة تنبغي من أحد على أحد إلا على النبي یعنی حضرت سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ آپ فرماتے ہیں میں صلاۃ  کو  نبی کریم ﷺ کے علاوہ کسی ایک کے ساتھ درست نہیں سمجھتا  ۔

(مصنف ابن أبي شيبة :2 / 254۔مطبوعہ: مكتبة الرشد – الرياض)

حضرت علامہ بدرالدین  عینی    علیہ الرحمہ   لکھتے ہیں : قال الشيخ أبو محمد الجويني من أئمة أصحابنا السلام في معنى الصلاة ولا يفرد به غير الأنبياء ‘‘یعنی شیخ ابو محمد امام جوینی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں ہمارے ائمہ کے اصحاب سے منقول ہے کہ سلام صلاۃ کے معنی میں ہے،  تنہا غیر انبیا پر  نہیں  بولا جائے گا۔

(شرح أبي داود للعيني – 5 / 444،، مطبوعہ : مكتبة الرشد –الرياض)

عمدۃ القاری میں ہے :وقال أبو حنيفة وأصحابه ومالك والشافعي والأكثرون: إنه لا يصلي على غير الأنبياء، عليهم الصلاة والسلام استقلالا، ترجمہ امام اعظم اور امام مالک اور امام شافعی  اور اکثر  فقہاء کرام علیہم الرحمہ فرماتے ہیں انبیائے کرام  علیہم الصلاۃ والسلام  کے علاوہ پر مستقلا درد وسلام نہیں بھیجا جائے گا  ۔

 (عمدة القاري شرح صحيح البخاري :9 / 95۔ مطبوعہ: دار إحياء التراث العربي – بيروت)

علم کلام کی بڑی معروف کتاب شرح عقائد نسفیہ کی شرح نبراس  میں ہے :لایجوز التصلیۃ والتسلیم علی غیرالانبیاء عند المحققین   من اہل السنۃ ۔محققین اہلسنت  کے نزدیک صلاۃ وسلام انبیا کے علاوہ کے لیے مستقلا جائز نہیں ۔                        

(النبراس ص07 )

درمختار میں ہے :ولا يصلي على غير الأنبياء ولا غير الملائكة إلا بطريق التبع۔ یعنی انبیائے کرام اور فرشتوں کے علاوہ پر درود نہیں بھیجا جائے گا مگر  کہ اتباع کے طور پر ۔

اسکے تحت رد المحتار میں فرمایا: وأما السلام فنقل اللقاني في شرح جوهرة التوحيد عن الإمام الجويني أنه في معنى الصلاة، فلا يستعمل في الغائب ولا يفرد به غير الأنبياء فلا يقال علي – عليه السلام۔یعنی اور بہرحال سلام تو امام لقانی علیہ الرحمہ   نے شرح جوہرۃ التوحید میں امام جوینی  علیہ الرحمہ سے نقل فرماتے ہیں :سلام بھی صلاۃ کے معنی میں ہے ،تولفظ سلام غائب کے بارے میں استعمال نہیں کیا جائے گا اور تنہا انبیا کے علاوہ کسی کے لیے   نہیں  ہوگا  ،پس(انبیا ئے کرام کے علاوہ  کے لیے  )  علیہ السلام نہیں  کہہ سکتے  ۔

(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار:6 / 753 مطبوعہ: دار الفكر-بيروت)

فقیہ مِلَّت حضرت علاَّمہ مولانا مُفْتی جلالُ الدِّین اَمجدی  رحمۃ اللہ علیہ  لکھتے ہیں  : ’’یہ مسئلہ مختلف فیہ ہے جمہور علماء کا مَذہَب یہ کہ اِسْتِقْلالاً واِبتداء ً  نہیں جائز اور اِتباعا جائز ہے یعنی امام حسین عَلَیْہِ السَّلام کہنا جائز  نہیں  ہے اور امام حسین عَلٰی نَبِینا وَعَلَیْہِ السَّلام جائز ہے ۔

(فتاوی فیض الرسول ،267/01)

صدرُ الشَّریعہ، بدرُ الطَّریقہ علامہ مولیٰنامفتی محمد امجد علی اعظمی  علیہ الرحمہ  فرماتے ہیں : اَہلِ اسلام نے اس سلام(یعنی علیہ السلام لکھنے بولنے)کو انبِیاء و ملائکہ کے ساتھ خاص کر دیا ہے۔ مَثَلاً حضرتِ ابراھیم علیہ السّلام حضرتِ موسیٰ علیہ السّلام حضرتِ جبرئیل علیہ السّلام حضرتِ میکائیل علیہ السّلام ۔ لہٰذا غیرنبی و مَلَک (نبی اور فرشتے کے علاوہ)کے نام کے ساتھ علیہ السّلام نہیں کہنا چاہئے ۔

(فتاویٰ امجدیہ ج4 ص 243۔245)

 امام اہلسنت  اِمام احمد رضاخان علیہ الرحمہ  ارشاد فرماتے ہیں  : صَلوۃ وسَلام باِلاِسْتِقْلَال اَنبیاء و مَلائکہ عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَ السّلام کے سوا کسی کے لئے روا نہیں   ،ہاں  بہ تَبْعیَّت جائز جیسے اَللّٰھُمَّ صَلّ وَسَلِّمْ عَلٰی سَیِّدِنَا وَمَوْلیٰنَامُحَمَّدٍ وَعَلٰی اٰلِ سَیِّدِنَا وَمَوْلیٰنا مُحَمَّدٍاور صحابۂ کرام  رَضِیَ اللّٰہ تَعالٰی عَنْہُم کے لئے رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کہا جائے ، اَولیاء وعُلماء کو رَحْمَۃُ اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْھِمْ  یا قُدِّسَتْ اَسْرَارُھُمْ اور اگر رَضِیَ اللّٰہ تَعَالٰی عَنْھُمْ کہے جب بھی کوئی مضائقہ  نہیں   ۔

(فتاوی رضویہ،23/290 )

                          واللہ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل وصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

کتبہ احسان احمد عطاری بن حضور بخش سکندری

نظر ثانی :قبلہ مفتی ابو احمد محمد انس قادری صاحب دامت برکاتہ