اجارہ کے دوران قرآن کی تلاوت کر سکتا ہے

سوال:مسجد کا خادم 6 گھنٹے کے اجارہ کے دوران 4 گھنٹے کے بعد صفائی سے فارغ ہونے کےبعد قرآن کی تلاوت کر سکتا ہے ؟جبکہ اس کی ذمہ داریوں میں چیزوں کی دیکھ بھال،حفاظت وغیرہ بھی ہے جو کہ تلاوت کے وجہ سے ممکن نہیں ہو پاتی ۔

الجواب بعون الملک الوھاب اللہم ھدایۃ الحق والصواب۔

فارغ وقت میں بیٹھ کر اگر قرآن دیکھ کر پڑھے گا تو یہ  درست نہیں کیونکہ اس سے چیزوں کی دیکھ بھال میں کوتاہی لازم آئے گی۔ البتہ اگر وہ اپنی نظروں سے چیزوں کی دیکھ بھال کررہا ہے اور زبانی قرآن پاک یا درود پاک وغیرہ پڑھ رہا ہے تو حرج نہیں۔

    در مختار میں ہے : ” وليس للخاص أن يعمل لغيره ولو عمل نقص من أجرته بقدر ما عمل “ ترجمہ : اجیرِ خاص کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ کسی دوسرے کا کام کرے ، اگر کرے گا ، تو جس قدر اُس کا کام کیا ، اس قدر اس کی اجرت سے کٹوتی کی جائے گی ۔

 اس کے تحت رد المحتار میں ہے :” بل ولا أن يصلي النافلة قال في التتارخانية: وفي فتاوى الفضلي وإذا استأجر رجلا يوما يعمل كذا فعليه أن يعمل ذلك العمل الى تمام المدة ولا يشتغل بشيء آخر سوى المكتوبة “ ترجمہ : بلکہ وہ نوافل بھی نہیں پڑھ سکتا ۔ تتار خانیہ میں فرمایاکہ فتاویٰ فضلی میں ہے : اسی طرح جب کسی بندے کو ایک دن کے لیے اجیر رکھا ، تو اس ( اجیر ) پر لازم ہے کہ وہ مدت مکمل ہونے تک اس کا کام کرتا رہے اور فرض نمازوں کے علاوہ کسی اور چیز میں مشغول نہ ہو ۔

( در مختار مع رد المحتار ،، جلد 6 ، صفحہ 70 ، مطبوعہ بیروت )

در مختار میں ہے : ” والثاني وهو الأجير الخاص ويسمى أجير وحد وهو من يعمل لواحد عملا مؤقتا بالتخصيص ويستحق الأجر بتسليم نفسه في المدة وان لم يعمل كمن استؤجر شهرا للخدمة “ ترجمہ : ( اجیر کی دو قسموں میں سے ) دوسری قسم اجیرِ خاص ہے اور اس کا نام اجیرِ وحد بھی ہے ۔ اجیرِ خاص  وہ شخص ہوتا ہے کہ جو کسی ایک شخص کے لیے خاص ہوکر وقت کے ساتھ مقرر کام کرے ۔ مدت کے دوران اپنے آپ کو مستاجر ( یعنی مالک ) کے سپرد کرنے سے یہ اجرت کا مستحق ہوتا ہے اگرچہ کام نہ بھی کرے ۔ جیسا کہ کسی شخص کو ایک مہینے کے لیے خدمت کے لیے اجیر رکھا۔

( در مختار مع رد المحتار ، جلد 6 ، صفحہ 69 ، مطبوعہ بیروت )

بہارِ شریعت میں ہے : ” اجیر خاص اُس مدت مقرر میں اپنا ذاتی کام بھی نہیں کرسکتا اور اوقاتِ نماز میں فرض اور سنت مؤکدہ پڑھ سکتا ہے ، نفل نماز پڑھنا اس کے لیے اوقات اجارہ میں جائز نہیں ۔ “

 ( بھارِ شریعت ، حصہ 14 ، جلد 3 ، صفحہ 161 ، مکتبۃ المدینہ ، کراچی )

فتاوی رضویہ میں ہے ” اجیر خاص پر وقت مقررہ معہود میں تسلیم نفس لازم ہے اور اسی سے وہ اجرت کا مستحق ہوتاہے ، ہاں اگر تسلیمِ نفس میں کمی کرے ، مثلا : (کام پر ) حاضر تو آیا ، لیکن وقت مقرر خدمت مفوضہ کے سوا اور کسی اپنے ذاتی کام اگر چہ نماز نفل یادوسرے شخص کے کاموں میں صرف کیا کہ اس سے بھی تسلیم منتقض ہوگئی ، بہر حال جس قدر تسلیمِ نفس میں کمی کی ہے ، اتنی تنخواہ وضع ہوگی ۔

           ( فتاویٰ رضویہ ، جلد 19 ، صفحہ 506 ،  ملخصاً ۔رضا فاؤنڈیشن ، لاھور )

کتبہ احسان احمد عطاری بن حضور بخش سکندری

نظر ثانی :حضرت قبلہ مفتی ابواحمد محمد انس قادری صاحب ،