وقف کی جگہ کو اگر غصب کیا تو جتنا عرصہ منفعت اٹھائی کیا اس کا کرایہ دینا ہوگا

سوال: وقف کی جگہ کو اگر غصب کرکے ذاتی استعمال کیا تو جتنا عرصہ منفعت اٹھائی کیا اس کا کرایہ دینا ہوگا؟

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب

وقف کی جگہ پر اگر کوئی قبضہ کر لے تو دیگر مسلمانوں پر لازم ہے کہ اس جگہ کو اس کے قبضے سے آزاد کروائیں اور جتنا عرصہ وہ جگہ اس کے استعمال میں رہی اتنے عرصے کا کرایہ اس سے وصول کریں ۔یہ حاصل ہونے والی رقم اسی وقف پر استعمال ہو گی۔

تنویر الابصار مع درمختار میں ہے: (منافع الغصب استوفاها أو عطلها) فإنها لا تضمن عندنا۔۔۔ (إلا) في ثلاث فيجب أجر المثل على اختيار المتأخرين (أن يكون) المغصوب (وقفا) للسكنى أو للاستغلال (أو مال يتيم ۔۔۔او معدا للاستغلال)

ترجمہ:غصب کی گئی چیز کے منافع پر ضمان نہیں خواہ غاصب نے ان منافع کو حاصل کیا ہو یا معطل رکھا ہو،سوائے تین صورتوں میں کہ ان میں متاخرین کے اختیار کردہ قول کے مطابق اجرت مثل واجب ہو گی،ایک یہ کہ غصب کی گئی شے رہائش یا کرائے پر دینے کے لیے وقف ہو ، یا یتیم کا مال ہو یا کرائے پر دینے کے لیے بنائی گئی جگہ ہو۔

(فتاویٰ شامی جلد 9، ص344-346،مطبوعہ دارالمعرفہ بیروت)

فتاویٰ رضویہ شریف میں ہے: مسلمانوں کو زید کی ایسی بیجا دست برد و ظلم پر سکوت حرام ہے اور چارہ جوئی فرض۔ لازم ہے کہ بذریعہ حکومت مسجد کی وہ پہلی زمین اور پشتہ کی زمین سب اس کے قبضہ سے نکلوائی جائے اور پہلے جس حالت پر تھی اسی حالت پر جبراً اس سے کرائی جائے اور جتنی اینٹیں اس نے تصرف میں کرلی ہیں وہ متمیز ہوں تو واپس لی جائیں ورنہ ان کی قیمت لی جائے اور جتنے دنوں یہ استنجا خانہ و پشتہ وغیرہ کی زمین اس کے قبضہ میں رہی یا تا انفصال رہے اس سب کا کرایہ اس سے مسجد کے لئے لیا جائے۔

(فتاویٰ رضویہ جلد 16، ص232، رضا فاؤنڈیشن لاہور)

واللہ تعالیٰ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم

کتبہ

محمد ایوب عطاری مدنی

9جون 2021ء بمطابق 28 شوال المکرم 1441ھ

نظر ثانی : محمد انس رضا قادری