گائے کی قربانی میں اگر کل حصے سات سے زیادہ ہوگئے تو کیا حکم ہے

سوال: گائے کی قربانی میں اگر کل حصے سات سے زیادہ ہوگئے تو کیا حکم ہے؟

الجواب بعون الملک الوھاب  اللھم  ھدایۃ الحق وا لصواب

گائے اور اونٹ میں زیادہ سے زیادہ سات حصے ہو سکتے ہیں، اگر سات سے زیادہ حصے ہوں تو کسی کی بھی قربانی نہیں ہو گی کیونکہ قربانی کے لیے سب حصے داروں کا کم از کم ساتوں حصہ ہونا ضروری ہے،جب سات سے زائد حصے ہوں گے تو ہر ایک کا حصہ ساتویں سے کم ہو گا اور کسی کی طرف سے قربانی نہیں ہو گی۔

المعجم الکبیر للطبرانی میں ہے: عن عبد الله، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «البقرة عن سبعة، والجزور عن سبعة في الأضاحي»

ترجمہ:عبداﷲبن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے  کہ حضور(صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم)نے فرمایا:”قربانی میں گائے سات کی طرف سے اور اونٹ سات کی طرف سے ہے۔“

(المعجم الکبیر،الحدیث:۱۰۰۲۶،ج۱۰،ص۸۳)

تنوير الابصار مع درمختارمیں ہے:(فتجب) التضحية … (شاةأو سبع بدنة) هي الإبل والبقر… ولو لأحدهم أقل من سبع لم يجز عن أحد.

ترجمہ: تو قربانی واجب ہے، بکری یا بدنہ یعنی گائےیا  اونٹ کا ساتواں حصہ۔۔۔اور اگر حصے داروں میں سے کسی ایک کا حصہ ساتویں حصے سے کم ہو تو کسی ایک کی طرف سے بھی قربانی نہیں ہو گی۔

(فتاویٰ شامی،جلد 9،ص521 تا 524، دارالمعرفہ بیروت)

بہارشریعت میں ہے:” جب قربانی کے شرائط مذکورہ پائے جائیں تو بکری کا ذبح کرنا یا اونٹ یا گائے کا ساتواں حصہ واجب ہے۔ ساتویں حصہ سے کم نہیں ہوسکتا بلکہ اونٹ یا گائے کے شرکامیں اگر کسی شریک کا ساتویں حصہ سے کم ہے تو کسی کی قربانی نہیں ہوئی یعنی جس کا ساتواں حصہ یا اس سے زیادہ ہے اوس کی بھی قربانی نہیں ہوئی۔“

(بہارشریعت جلد 3 حصہ 15،ص335)

        اللہ اعلم  عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم

کتبہ

محمدایوب عطاری               

16ذوالقعدۃ الحرام1441 ھ/27جون 2021 ء

نظر ثانی : محمد انس رضا قادری