بڑی عید کو بھوکا رہنا اور اپنی قربانی کے گوشت سے کھانا اور اس عمل کو روزہ کہنا

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین اس بارے  میں کہ بڑی عید کو بھوکا رہنا اور اپنی قربانی کے گوشت سے کھانا اور اس عمل کو روزہ کہنا کیسا؟                                       

الجواب بعون الملک الوهاب اللهم هداية الحق والصواب

بڑی عید  کے دن مستحب یہ ہے کہ نماز عید  سے پہلے کچھ نہ کھایا جائے بلکہ نماز عید کے بعد کھایا جائے چاہے قربانی کرے یا نہ کرے لیکن جو قربانی کرے وہ اپنی قربانی کے گوشت سے کھائے تو بہتر ہے اور اس عمل کو روزہ نہ کہا جائے کیونکہ عید الاضحی سے تیرہ ذو الحجہ تک روزہ رکھنا حرام ہے۔

ترمذی شریف کی حدیث پاک ہے:“کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم لا یخرج یوم الفطر حتی یطعم ولا یطعم یوم الاضحی حتی یصلی”ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر کے لئے نہ نکلتے حتی کہ کچھ کھا لیتے اور عید الاضحی کے دن کچھ نہ کھاتے یہاں تک کہ نماز پڑھ لیتے۔

(ترمذی،کتاب الجمعہ، ابواب العیدین، باب فی الاکل یوم الفطر قبل الخروج،صفحہ 140، مکتبہ المعارف)

بیہقی میں یہ الفاظ بھی ہیں:” فياكل من أضحيته” ترجمہ: تو قربانی کی کلیجی سے تناول فرماتے۔                                                

(السنن الکبری للبیہقی،جلد 3، کتاب صلاۃ العیدین،باب یترک الاکل یوم النحر حتی یرجع،صفحہ 401،دار الکتب العلمیہ)

علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:“قال المهلب بن أبي صفرة إنما كان يأكل يوم الفطر قبل الغدو إلى الصلاة؛ لئلا يظن ظان أنَّ الصيام يلزم يوم الفطر إلى أن يصلي صلاة العيد، وهذا المعنى مفقود في  يوم الأضحى”. وقال ابن قدامة: ” الحكمة في ذلك أنَّ يوم الفطر حرم فيه الصيام عقب وجوبه، فاستحب تعجيل الفطر لإظهار المبادرة إلى طاعة الله وامتثال أمره في الفطر على خلاف العادة، والأضحى بخلافه مع ما فيه من استحباب الفطر على شيء من أضحيته ” ترجمہ: مہلب بن ابی صفرہ نے کہا عید الفطر والے دن نماز عید کے لیے عید گاہ کی طرف جانے سے پہلے کھانے میں یہ حکمت ہے کہ کوئی یہ گمان نہ کرے کہ عید الفطر والے دن نماز عید پڑھنے تک روزے لازم ہیں اور یہ معنی عید الاضحی والے دن میں مفقود ہے۔علامہ ابن قدامہ نے کہا کہ اس میں حکمت یہ ہے کہ عید الفطر کے دن میں روزہ حرام ہے جبکہ اس سے پہلے رمضان میں فرض تھا تو فطر کی تعجیل کرنا مستحب ہوا تاکہ فطر میں اللہ پاک کی اطاعت اور اس کے حکم کی بجا آوری کی طرف جلدی کا اظہار ہو اور عید الاضحی کا معاملہ اس کے بر خلاف ہے یعنی اس سے پہلے روزے فرض نہیں اور مزید یہ کہ عید الفطر میں عید الاضحی کی طرح نماز عید کے بعد قربانی وغیرہ کوئی چیز نہیں کہ جس سے ابتدا مستحب ہو۔

(قوت المغتذي على جامع الترمذي،جلد 1،ابواب الصلاۃ،صفحہ 226،جامعہ ام القری،مکہ المکرمہ)

علامہ علی قاری رحمۃ اللہ فرماتے ہیں: “سبب التأخير في الْأضحى ليأْكل من أضحيته أولا”ترجمہ: عید الاضحی میں نماز عید کے بعد کھانے کا سبب یہ ہے کہ وہ اولا اپنی قربانی سے کھائے۔

(مرقاة المفاتيح،جلد 3،باب صلاۃ العیدین،صفحہ 1066،دار الفکر بیروت)

فتاوی عالمگیری میں ہے:“انہ یترک الاکل حتی یصلی العید ۔۔۔۔۔۔۔و یستحب ان یکون اول تناولھم من لحوم الاضاحی التی ھی ضیافۃ اللہ”ترجمہ:عید کی نماز سے پہلے کچھ نہ کھائے۔۔۔۔۔مستحب ہے کہ لوگوں کا پہلا کھانا(عید الاضحی کے دن) اس قربانی سے ہو جو اللہ کی طرف سے مہمانی ہے۔

(عالمگیری،جلد1،کتاب الصلاۃ،الباب السابع عشر فی صلاۃ العیدین،صفحہ 165،دار الکتب العلمیہ)

فتاوی سراجیہ میں ہے:“الادب فی عید الاضحی ان لا یذوق شیئا الی ان ینصرف من المصلی لیکون افطارہ بلحم الاضاحی”ترجمہ: عید الاضحی میں ادب یہ ہے کہ کچھ نہ چکھے یہاں تک کہ عید گاہ سے واپس نہ آجائے تاکہ اس کا افطار قربانی کے گوشت سے ہو۔

افطارہ کے تحت لکھا ہے:“تسمیہ ھذا الطعام بالافطار مشاکلہ و الا فلا صوم فی یوم العید”ترجمہ: اس کھانے کو افطار کا نام دینا مشابہت کی وجہ سے ہے ورنہ عید کے دن روزہ رکھنا جائز نہیں۔

(الفتاوی السراجیہ،کتاب الصلاۃ،باب العیدین،صفحہ 109)

بہار شریعت میں ہے:”عیداضحی تمام احکام میں  عیدالفطر کی طرح ہے صرف بعض باتوں  میں  فرق ہے، اس میں  مستحب یہ ہے کہ نماز سے پہلے کچھ نہ کھائے اگرچہ قربانی نہ کرے اور کھا لیا تو کراہت نہیں۔

(بہار شریعت،جلد 1،حصہ 4،عیدین کا بیان،صفحہ 784،مکتبہ المدینہ)

                                                                 و  الله      اعلم عزوجل و رسولہ اعلم صلی اللہ علیہ وسلم

     کتبہ:     فراز عطاری مدنی بن محمد اسماعیل

نظر ثانی:                                                                                    أبو     أحمد مفتی انس رضا عطاری مدنی دامت برکاتہم العالیہ